کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 574
جائے گا۔ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت کی تفسیر تو بن سکتا ہے مگر پہلی روایت کی نہیں کیونکہ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا ( اس کے لیے کم قیمت لینا جائزہے) کے الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کی دو بیعیں کر رہا ہے ۔ ایک بیع کی قیمت کم ہے جبکہ دوسری کی زیادہ۔ اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ ایک آدمی کسی کو ایک دینار اُدھار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مہینے بعد مجھے اس کے بدلے ایک قفیز گندم دے دینا ، وقت آنے پر وہ اس گندم کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے ، آپ کا جو ایک قفیز میرے ذمہ ہے وہ مجھے بیچ دو اور دو مہینے بعد دو قفیز مجھ سے لے لینا۔ یہ ایک بیع میں دو بیعیں ہیں کیونکہ دوسری بیع پہلی بیع پر داخل ہوئی ہے۔ تو خریدار دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہی ادا کرے گا اور وہ پہلی ( ایک قفیز ہی) ہے شرح السنن لابن رسلان میں اسی طرح ہے ۔ امام شوکانی کی بات ختم ہوئی۔ حدیث کے الفاظ ’’ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا‘‘ کا مطلب ہے دونوں قیمتوں میں کم درجہ کی قیمت۔ علامہ خطابی فرماتے ہیں : (( لَا أَعْلَمُ أَحَداً قَالَ بِظَاھِرِ الْحَدِیْثِ ، وَصَحَّحَ الْبَیْعَ بِأَوْکَسِ الثَّمَنِیْنِ إِلاَّ مَا حُکِیَ عَنِ الْاَوْزَاعِیِّ وَھُوَ مَذْھَبٌ فَاسِدٌ)) [1] ’’میں کسی کو نہیں جانتا جس نے حدیث کے ظاہر الفاظ کو سامنے رکھ کر ’’دو قیمتوں میں سے کم قیمت والی بیع‘‘ کو صحیح قرار دیا مگر امام اوزاعی اسے صحیح کہتے ہیں اور امام اوزاعی کا یہ نظریہ فاسد ہے۔ انتہی‘‘ یہ تو واضح ہے کہ امام اوزاعی نے جو فرمایا حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے ؛ کیونکہ ’’ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا‘‘ کا یہی تقاضا ہے کہ دو قیمتوں میں سے کم قیمت لینا جائز ہے۔ (( قَوْلُہٗ : (أَوِ الرِّبَا)یَعْنِیْ أَوْ یَکُوْنُ قَدْ دَخَلَ ھُوَ وَصَاحِبُہٗ فِی الرِّبَا الْمُحَرَّمِ إِذَا لَمْ یَأْخُذِ الْأَوْکَسَ ، بَلْ أَخذَ الْاَکْثَرَ وَذٰلِکَ ظَاھِرٌ فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہُ ابْنُ رَسْلَانَ ، وَأَمَّا فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہُ أَحْمَدُ عَنْ سَمَّاکٍ ، وَذَکَرَہُ الشَّافِعِیْ فَفِیْہِ مُتمَسَّکَ
[1] تحفۃ الاحوذی؍شرح جامع الترمذی لأبی العلاء المبارکفوری أبواب البیوع؍باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ:۴؍۳۵۹