کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 568
یَّستَغْنِ یُغْنِنْہُ اللّٰہُ)) (جو پاکدامنی اختیار کرنا چاہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے پاکدامن بنا دیتا ہے اور جو حرام سے بچنا چاہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے حرام سے بچا لیتا ہے ۔)[1] اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ ا للّٰه یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی ا للّٰه فَھُوَ حَسْبُہٗ إِنَّ ا للّٰه بَالِغُ أَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ ا للّٰه لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا﴾[الطلاق:۳] (’’ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے وہ اس کے لیے کوئی نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اُسے اُمید بھی نہیں ہوتی اور جو اللہ پر بھروسہ کر لے تو وہ اُسے کافی ہو جاتا ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ لگا رکھا ہے۔‘‘) لہٰذا اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین : ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾ [الحج:۸۷] اور ﴿یُرِیْدُ ا للّٰه بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾[البقرۃ:۱۸۵] (’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرام کردہ چیزوں کو دفعِ حرج اور رفع عسر ( تنگی اُٹھانا اور دور کرنا) کے دعویٰ سے حلال نہیں کرتے۔‘‘) ورنہ لازم آئے گا کہ ہر حرام حلال ہو جائے اور یہ ٹھیک نہیں ۔ چھٹی دلیل بھی صحیح نہیں ، کیونکہ اسے صحیح ماننے سے شریعت کی ہر حرام کردہ چیز اس علت اور وجہ سے حلال ٹھہرے گی کہ جی ! ایسے محسنین کی کمی ہے جو لوگوں کو اپنے مال بطورِ قرض حسنہ دیں ۔ اور یہ علت بھی کمزور ہے۔ ساتویں دلیل سے بھی ’’ قسطوں کی بیع کا جواز‘‘ ثابت نہیں ہوتا ، اس لیے کہ (ا)قسطوں کی بیع ‘ سودی بیع ہے جس میں زائد منافع ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے ہوتا ہے جو کہ شریعت میں سود کہلاتا ہے۔ (ب) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) دراصل قسطوں کی بیع میں تھوڑے درہم یا دینار کی زیادہ کے بدلے بیع ( خریدو فروخت) ہوتی ہے اور یہ تو سود کے لیے واضح طور پر حیلہ ہے( یہ مسئلہ ان شاء اللہ تعالیٰ آگے آرہا ہے) لہٰذا پتہ چلا کہ قسطوں کی بیع سے سود کا راستہ بند نہیں ہوتا بلکہ یہ سود کا بہت بڑا دروازہ خوب کھول دیتی ہے۔ آٹھویں دلیل سے صاحب مقال کا دعویٰ اس لیے ثابت نہیں ہوتا کہ ذکر کردہ دلیل ’’قیمت میں تاخیر کے عوض اضافہ کا جواز‘‘ نہ قرآن سے ثابت ہے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے بلکہ یہ صرف دعویٰ ہے۔ ہاں ! یہ ضرور ثابت ہے کہ قیمت مؤجل ہونے کی بناء پر نفع لینا( اور اس میں زائد قیمت بھی آگئی) جائز نہیں ۔ اور سود کی حرمت کے بہت سارے دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ جو لوگ ’’قسطوں کی بیع‘‘ کو اس وجہ سے سودی بیع کہتے ہیں کہ اس میں صرف ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے پیسے
[1] بخاری؍کتاب الزکاۃ؍باب لا صدقۃ الا عن ظھر غنا:۱۴۲۸۔ مسلم؍کتاب الزکاۃ؍باب فضل التعفف والصبر:۱۰۵۳