کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 559
دلائل کے پیش نظر اُدھار بیع میں نقد کے مقابلہ میں قیمت زیادہ کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ خریدار اور فروخت کنندہ اُدھار یا نقد قطعی فیصلہ کر کے کسی ایک قیمت پر متفق ہو جائیں (نیل الاوطار :۵/۱۷۲) لہٰذا اگر بائع یہ کہے کہ میں یہ چیز نقد اتنے میں اور اُدھار اتنے میں فروخت کرتا ہوں ، اس کے بعد کسی ایک بھاؤ پر اتفاق کیے بغیر دونوں جدا ہو جائیں جہالت ثمن کی وجہ سے یہ بیع ناجائز ہے لیکن اگر عاقدین مجلس عقد میں ہی کسی ایک شق اور کسی ایک ثمن پر اتفاق کر لیں تو بیع جائز ہو جائے گی چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ جامع ترمذی میں لکھتے ہیں : ’’ بعض اہل علم نے حدیث ’’ بیعتین فی بیعۃ‘‘ کی تشریح بایں الفاظ کی کہ’’ بائع مشتری سے کہے کہ میں کپڑا تمہیں نقد دس اور اُدھار بیس روپے میں فروخت کرتا ہوں اور پھر کسی ایک بیع پر اتفاق کر کے جدائی نہیں ہوئی لیکن اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پر اتفاق ہونے کے بعد جدائی ہوئی تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ معاملہ ایک پر طے ہو گیا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی/کتاب البیوع) امام ترمذی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’بیعتین فی بیعۃ‘‘ کے ناجائز ہونے کی علت یہ ہے کہ عقد کے وقت کسی ایک صورت کی عدم تعیین سے ثمن دو حالتوں میں متردد ہو جائے گی اور یہ تردد جہالت ثمن کو مستلزم ہے ، جس کی بناء پر ناجائز ہوئی ، مدت کے مقابلہ میں ثمن کی زیادتی ممانعت کا سبب نہیں لہٰذا اگر عقد کے وقت ہی کسی ایک حالت کی تعیین ہو جائے اور جہالت ثمن کی خرابی دور کر دی جائے تو پھر اس کے جواز میں شرعاً کوئی قباحت نہیں رہے گی ، یہی موقف راجح ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں اس بیع کے عدم جواز پر کوئی نص موجود نہیں ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ معاملات کے متعلق فرماتے ہیں :’’ جو معاملات انسان کو ضرورت کے طور پر پیش آتے ہیں وہ سب حلال اور جائز ہیں الا یہ کہ اس کی حرمت پر قرآن و حدیث میں کوئی واضح دلیل موجو د ہو۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۲۸/۳۸۶) ہم نے آغاز میں جو ایک اصول بیا ن کیا تھا اسے ایک مرتبہ پھر بنظر غائر دیکھ لیا جائے اور اس بیع میں جو ثمن کی زیادتی ہے اس پر ربا کی تعریف بھی صادق نہیں آتی کیونکہ وہ قرض نہیں اور نہ ہی اموال ربویہ کی خریدو فروخت ہو رہی ہے بلکہ یہ عام بیع ہے اور اس عام بیع میں فروخت کنندہ کو شرعاً مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنی چیز جتنی قیمت میں چاہے فروخت کرے اور اس کے لیے شرعاً یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی چیز کو بازار کے بھاؤ سے فروخت کرے اور قیمت کی تعیین میں ہر تاجر کا اپنا ایک اصول اور انداز ہوتا ہے ۔ اس پر پابندی نہیں ہے کہ وہ ایک متعین ریٹ پر اپنی اشیاء کو فروخت کرے اس سلسلہ میں ہمارا بیان کردہ دوسرا اُصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ بعض اوقات ایک ہی چیز کی قیمت