کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 558
لیکن ان گزارشات سے پہلے دو اصولی باتیں گوش گزار کرنا ضروری خیال کرتے ہیں : 1۔معاملات اور عبادات میں فرق یہ ہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے الا یہ کہ شریعت نے اس کی بجا آوری کا حکم دیا ہو جبکہ معاملات میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ شریعت نے کسی کے متعلق حکم امتناعی نہ دیا ہو۔ صورتِ مسؤلہ کا تعلق معاملات سے ہے اس کے متعلق ہم نے حکم امتناعی تلاش کرنا ہے۔ بصورتِ دیگر یہ حلال اور جائز ہے۔ 2۔کسی چیز کا بھاؤ متعین کر دینا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مدینہ نے اشیاء کے بھاؤ متعین کر دینے کے متعلق عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق اور اُتار چڑھاؤ کا مالک ہے نیز وہ تمام مخلوق کا رازق ہے میں نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن میرے ذمے کسی کا کوئی حق ہو۔‘‘[1] (مسند امام احمد:۳/۱۵۶) اس بناپر اشیاء کی قیمتیں توقیفی نہیں ہیں کہ ان میں کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو نیز کسی چیزکا نفع لینے کی شرح کیا ہو؟ اس کے متعلق بھی شریعت کا کوئی ضابطہ نہیں ہے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسے واقعات بھی منقول ہیں کہ انہوں نے قیمت خرید پر دو گنا وصول کیا۔ (صحیح بخاری) [2] صورتِ مسؤلہ یوں ہے کہ ایک دکاندار اپنی اشیاء بایں طور فروخت کرتا ہے کہ نقد ادائیگی کی شکل میں ایک چیز کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے لیکن وہی چیز ایک سال کے اُدھار پر ۴۰۰ روپے میں اور دوسال کے اُدھار پر ۵۰۰ روپے میں فروخت کرتا ہے ۔ اُدھار کی شکل میں خریدار کو اختیار ہے کہ وہ سال کے اختتام پر واجب الاداء رقم یک مشت ادا کر دے یا حسب معاہدہ اس رقم کو بالاقساط ادا کرے، موجودہ دور میں قسطوں پر اشیاء ضرورت بیچنے کا رواج تمام اسلامی ممالک میں عام ہو چکا ہے اور بہت سے لوگ اپنی ضرورت کی اشیاء صرف قسطوں پر خریدسکتے ہیں اور نقد خریدنا ان کی طاقت سے باہر ہوتا ہے واضح رہے کہ قسطوں کی صورت میں ایک چیز کی قیمت بازاری قیمت سے زیادہ مقرر کی جاتی ہے بعض علماء اس زیادتی کو ناجائز کہتے ہیں کیونکہ ثمن کی یہ زیادتی’’ مدت‘‘ کے عوض میں ہے اور جو ثمن ’’مدت ‘‘ کے عوض میں ہو وہ سود ہے جسے شریعت نے حرام کہا ہے ۔ علامہ شوکانی نے زین العابدین علی بن حسین ، ہادویہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے۔لیکن ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ خرید و فروخت کے عمومی
[1] ترمذی؍کتاب البیوع؍باب ما جاء فی التسعیر۔ابو داؤد؍کتاب الاجارۃ؍باب التسعیر ابن ماجہ؍کتاب التجارات؍باب من کرہ ان یعسر [2] بخاری؍کتاب المناقب؍باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔ ترمذی؍کتاب البیوع؍باب ۳۴