کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 554
فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) [1] [’’جو شخص ایک بیع میں دو سودے کرتا ہے تو اس کے لیے کم تر قیمت والا ہے یا سود ہے۔‘‘]اسی طرح ۱۰۰/ روپے دے کر یا لے کر ۱۱۰/ روپے لینا یا دینا بھی سود ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :((لَا تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ إِلاَّ سَوَائً بِسَوَائٍ ، وَالْفِضَّۃَ بِالْفِضَّۃِ إِلاَّ سَوَائً بِسَوَائٍ)) [2] [سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض کمی بیشی سے مت فروخت کرو۔‘‘] بیع تقسیط کو جائز قرار دینے والے دلیل میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی حدیث: ((أَنَّ النَّبِیَّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم أَمَرَہٗ أَنْ یُجَھِّزَ جَیْشًا ، فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ فَأَمَرَہٗ أَنْ یَّاْخُذَ عَلٰی قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ ، فَکَانَ یَأخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَ یْنِ إِلٰی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ)) [3] [’’عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ، پس اونٹ ختم ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ صدقہ کی جوان اونٹنیوں کے وعدے پر اونٹ حاصل کر لے۔ پس عبداللہ رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹ آنے تک ایک ایک کو دو دو اونٹ کے بدلے حاصل کرتے تھے۔‘‘][اس حدیث کی سند میں مسلم ابن جبیر اور ابو سفیان ہیں ۔ امام ذہبی نے ان دونوں کو مجہول کہا ہے۔]پیش فرماتے ہیں مگرشیخ البانی رحمہ اللہ نے تعلیق مشکاۃ[کتاب البیوع/ باب الربا/الفصل الثانی] میں تصریح فرمائی ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے پھر بیع حیوان بحیوان میں نقد کی صورت میں بھی تفاضل درست ہے لہٰذا نسیئہ کی صورت میں بیع حیوان بحیوان میں ایک طرف اضافہ کا بوجہ نسیۂ ہونا متعین نہیں ۔ اور کئی کہتے ہیں بیعتین فی بیعتہ میں نہی کی علت عدم تعیین قیمت ہے مگر ان کی یہ بات مذکورہ بالا حدیث: ((فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) میں نہیں چل سکتی کیونکہ اس میں نہی کی علت ربا ہونا منصوص ہے اور معلوم ہے جہاں موجود ہو نص جلیل وہاں کسی عالم و مجتہد کی تعلیل ہوتی ہے فقط چالِ علیل سمجھ ہے تو آپ کو اجر جزیل۔ ۵/۱۱/۱۴۲۵ھ س :…قسطوں پر خریدی جانے والی گاڑی سودی رقم سے ہے یا نہیں جبکہ رقم پہلے ہی مقرر ہوتی ہے؟ (محمد شکیل ، فورٹ عباس ۱۷/۱۲/۲۰۰۰ء) ج: قسطوں پر خریدی ہوئی چیز ، گاڑی ہو خواہ کوئی اور ۔ کی قسطوں والی قیمت اگر نقد قیمت کی بنسبت زیادہ ہے تو سود ہے وہ پہلے ہی سے مقرر ہو یا بعد میں بڑھائی جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) [4] [’’جو ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے پس اس کے لیے ان
[1] سنن ابی داؤد/کتاب البیوع/باب فی من باع بیعتین فی بیعۃ۔ [2] صحیح بخاری/کتاب البیوع/باب بیع الذھب بالذھب۔ [3] ابو داؤد/کتاب البیوع/باب فی الرُّخصۃ۔ [4] سنن ابی داؤد/کتاب البیوع/باب فی من باع بیعتین فی بیعۃ واحدۃ۔