کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 553
نادرست اور حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ:۲۸۵] [’’اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘] ابو داؤد وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) [1] [’’جس کسی نے ایک چیز کی دو قیمتیں مقرر کیں وہ یا تو کم قیمت لے لے یا پھر وہ سود ہو گا۔‘‘ ] س: مسئلہ سود کے بارے میں حل مطلوب ہے کہ ایک آدمی کوئی جانور بھینس یا گائے وغیرہ فروخت کرتا ہے ۔ وہ نقد۱۰/ ہزار روپے میں فروخت کرتا ہے ۔ اور ۶/ ماہ کے اُدھار پر وہ ۱۵/ ہزار میں فروخت کرتا ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے اور اُدھار کی صورت میں ۵/ ہزار روپے اضافہ لینا کیا سود ہے یا جائز ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب سے مشکور فرمائیں ۔ (عبدالمجید خطیب، قلعہ کالر والہ) ج: بیع کی صورت جو آپ نے لکھی’’ نقد دس ہزار اور اُدھار پندرہ ہزار‘‘ درست نہیں بوجہ سود ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) [2] [’’جو شخص ایک بیع میں دو سودے کرے تو اس کے لیے کم تر قیمت والا سودا ہے یا سود ہے۔‘‘ ]ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے۔ ہاں ’’نقد دس ہزار اور اُدھار بھی دس ہزار ‘‘ میں خریدو فروخت ہو تو درست ہے جائز ہے۔ ۴/۷/۱۴۲۱ھ س: قسطوں کا کاروبار ، اس کی کئی صورتیں ہیں ، ایک تو عام ہے جو تقریباً ہر شہر میں ہے کہ پنکھے ، استریاں اور دوسری چیزیں قسطوں پر دیتے ہیں ، ہمارے ہاں سوتر منڈی میں ، سوتر فروخت کرتے وقت دکاندار گاہک کو کہتا ہے کہ دس دن کے بعد پیسے دو گے تو ۷۰/ روپے کلو کے حساب سے ملے گا، بیس دن کے بعد دو گے تو ۹۰ / روپے کے حساب سے، ابھی ادا کردو گے تو ۵۰ / روپے کلو کے حساب سے ۔ غرضیکہ مدت کے کم زیادہ ہونے سے قیمت میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔ اسی طرح نئے نوٹوں کی ۱۰۰/ روپے کی کاپی ۱۱۰ / روپے میں ملتی ہے۔ ۱۱۰/ روپے دے کر ۱۰۰/ روپے لیتے ہیں ۔ اس طرح کی اور بھی کئی صورتیں ہیں آپ ان کو بہتر جانتے ہیں اس کا تفصیل سے جواب دیں ؟ (قاسم بن سرور) ج: بیع تقسیط میں متعدد قسطوں میں وصولی کی جانیوالی رقم و قیمت اگر نقد رقم و قیمت کے برابر یا اس سے کم ہو تو یہ بیع شرعاً درست اور جائز ہے او ر اگر متعدد قسطوں میں وصول کی جانے والی رقم و قیمت نقد رقم و قیمت سے زیادہ ہو تو یہ بیع بوجہ سود شرعاً نا درست اور ناجائز ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ
[1] ابو داؤد/کتاب البیوع۔ باب فی من باع بیعتین فی بیعۃ [2] ابو داؤد/کتاب البیوع/باب فی من باع بیعتین فی بیعۃ۔