کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 55
کا معاملہ ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو جس قسم کی زندگی اس نے بسر کرنی ہوتی ہے اور جس قسم کے حالات اس کی زندگی میں آنے والے ہوتے ہیں اس کی مناسبت سے اس کے اندر ساری خاصیتیں رکھ دی جاتی ہیں ۔ حتیٰ کہ درخت کے بیج کے اندر اللہ تعالیٰ نے ساری خاصیتیں رکھ دی ہیں کہ اس کا ایک حصہ پتے بنے گا ، ایک حصہ تنا بنے گا اور ایک حصہ جڑوں کی شکل میں زمین میں پھیل کر پانی اور غذا فراہم کرے گا۔ اس طرح کی کاریگری اور فن کا مظاہر ہ وہی ذات کر سکتی ہے جسے پیشگی معلوم ہو کہ یہ نباتات پانی، غذا ، روشنی اور ہوا کی ضرورت مند ہوں گی۔
ایک مذکر کی پیدائش پر غور کر لو تو معلوم ہو گا کہ خالق نے اس کے لیے ضروری اعضاء اور جوہر پیدا کر دیے ہیں ۔ اسی طرح مونث کا معاملہ ہے کہ ایک خاندان کی بنیاد ڈالنے کے لیے جن اعضاء اور جواہر کی ضرورت ہو سکتی ہے وہ مونث میں رکھ د ی گئی ہیں ۔ ان سب باتوں پر تم غور کرو تو لازماً اس نتیجے پر پہنچو گے کہ یہ کمالات کسی علیم ذات ہی کے ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ﴾ [الذاریات:۴۹]
’’ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں ، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔‘‘
میٹھا پانی ایک جگہ کھڑا رہے تو بدبو چھوڑ دیتا ہے، اس لیے علیم ذات نے سمندروں کو نمکین بنایا ہے اور ان کے اندر رواں دواں ہمہ وقت متحرک موجیں پیدا کی ہیں ، تا کہ سمندر کی بد بو کی وجہ سے زمین پر زندگی دشوار اور پریشان کن نہ بن جائے۔
مذکورہ بالا امور ہی نہیں بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس کائنات کا خالق اپنی ساری مخلوق کے بارے میں کامل و مکمل علم رکھتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا خود یہی دعوی ہے۔ فرمایا:
﴿أَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ﴾ [الملک:۱۴]
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا؟ حالانکہ وہ باریک بین اور خبردار ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو احاطے میں لیے ہوئے ہے، وہاں کبھی لاعلمی کا گزر بھی نہیں ہوا او راس سے کسی چیز کے بارے میں بھول چوک کا ہو جانا بھی محال ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لِتَعْلَمُوآ أَنَّ ا للّٰه عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِ یْرٌ وَّ أَنَّ ا للّٰه قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًا o﴾ [ الطلاق:۱۲]
’’تا کہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اوریہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔‘‘