کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 538
کو ارض القرآن جانا نصیب ہوا۔ وہاں بھی میں نے یہ مسئلہ اُٹھایا تو انہوں نے اُسے جائز کہا۔ المائدۃ:۸۷۔ ’’ایمان والو نہ حرام کرو پاک چیزیں جو حلال کیں اللہ پاک نے واسطے تمہارے اور نہ بڑھو حد سے۔‘‘ النحل:۱۱۶۔’’یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے وہ حرام ہے تو ایسے حکم لگا کر اللہ پاک پر جھوٹ نہ باندھو۔‘‘ الحجرات:۱۔ ’’ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔‘‘ ان آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔ مشکوٰۃ جلد ۳، از ابن عباس رضی اللّٰه عنہ وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنہُ مشکوٰۃ :…وَمَا سَکَتَ عَنْ اشیاء من غیر نسیان فلا تبعثوا عنھا.....الخ ترمذی شریف والی آپ نے غریب لکھ دی ان پر بھی غور فرما لیں ۔ باقی دلائل کا بھی وزن کریں ۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ ’’الاشباہ والنظائر ‘‘ میں مسند بزار ، ترمذی ، طبرانی کے حوالے سے کئی حدیثیں نقل کی ہیں ۔ اور مذکورہ حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں : ((الاصل في العادات ان لا یحظر الاما حظرہ اللّٰه ۔ (ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد۱،ص:۲۶۳)) پھر لکھتے ہیں : ((دل علی ان الاصل فی اشیاء الاباحۃ)) یہ حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ چیزوں میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ نص میں منع ہو۔ ابن عابدین رسالہ ثانیہ جلد ۱،ص:۴۴ میں لکھتے ہیں : ((والحدیث في شرع لہ اعتبار.....ولذ علیہ الحکم یدار .....الخ)) مجھے افسوس ہے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب عربی نہیں اُردو کاپی بھیج رہا ہوں ۔ ویسے مترجم اتنی بد دیانتی نہیں کر سکتا کہ متن ہی بدل دے۔بہر حال آپ عربی دیکھ لیں اور تسلی کر لیں ۔ صحیح بخاری کی شرح از مولانا داؤد راز کی فوٹی کاپی بھی بھیج رہا ہوں ۔ میں نے اچھے بھلے معتبر لوگوں سے آپ کا فتویٰ خط والا اور کتاب والا پڑھایا تو سب نے اس میں تضاد پایا۔ ذرا آپ بھی غور فرما لیں دوبارہ ۔جانور والی حدیثیں کتاب میں کھلی ہیں مگر خط میں بند بغیر کسی دلیل کے۔ ایسی توقع مجھے آپ سے ہر گز نہیں ہے ۔ آپ کی بند والی دلیل لغو ہے۔ اکابرین اہل حق امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ الانتفاع بالرھن کو جائز ثابت کرتے ہیں ۔ آپ بتائیں کہ کس بنیاد پر حرام کرتے ہیں اگر مذکورہ عالم آپ کو اپنے سے کم علم نظر آئیں تو اِنَّا لِلّٰہِ ….....کوئی تلخ و ترش بات ہو تو معذرت ۔ جلد جواب کا منتظر (رشید)