کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 536
اس با ت کا میں پھر یقین دلاتا ہوں کہ یہ تحقیق ہے کج بحثی ہر گز نہیں ۔ ویسے آپ کے خطوط میں دلائل کا مآخذ درج نہیں ہے۔واللہ یہ مسئلہ ہار جیت کا بھی نہیں بلکہ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے ۔ ما شاء اللہ آپ تو شیخ الحدیث ہیں آپ کو یاد ہو گا ترمذی شریف جلد ۲ .....وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ اور بھی ہیں دلائل وقت آنے پر عرض کروں گا ۔ اعلامُ الموقعین از ابن قیم رحمہ اللہ جلد ۲ اُردو انتفاع بالرھن سے منع کرنے کو حدیث دشمنی لکھا ہے۔ہم تو اہل حدیث ہیں آپ نے یہ مسئلہ لیا کہاں سے ؟ حالانکہ دو مماثل مسئلوں کا حکم ایک ہو گا بہر حال تو بعد میں عرض کروں گا اب صرف یہ لکھیں دونوں میں کس بات پر رضا مند ہیں ۔ رضا مند ان شاء اللہ مجھے اُمید ہے کہ جواب لکھنے میں تاخیر نہیں کریں گے۔ (صوبیدار محمد رشید ، قصور) بسم ا للّٰه الرحمٰن الرحیم از عبدالمنان نور پوری بطرف جناب محترم صوبیدار ( ر) محمد رشید صاحب، حفظہما اللہ الحمید المجید وعلیکم و رحمۃ اللّٰه و برکاتہ اما بعد! خیریت موجود عافیت مطلوب۔ بوجہ بیماری جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی اُمید ہے محسوس نہیں فرمائیں گے۔ یہ بندۂ فقیر الی اللہ الغنی تلمیذ الحدیث ہے آپ جیسے دوستوں بزرگوں نے طرح طرح کے القاب دینے شروع کر دیے ہیں جن کو یہ بندہ فقیر الی اللہ الغنی پسند نہیں کرتا۔ آپ نے دو تجویزیں پیش فرمائیں جن کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ متعلقہ موضوع پر میری تحریرات آپ کے پاس موجود ہیں جس عادل و منصف عالم دین کو آپ پسند فرمائیں میری تحریرات ان سے پڑھوا کر فیصلہ لے سکتے ہیں ۔ باقی مجھے طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریرات آپ دکھا سکتے ہیں ۔ رہی ترمذی شریف کی روایت : وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ تو وہ ضعیف و کمزور ہے کیونکہ اس کی سند میں سیف بن ہارون نامی راوی ضعیف ہے۔ صاحب تحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں : (( قولہ: عن (سیف بن ہارون)البرجمی قال فی النیل :ھو ضعیف متروک۔ وقال فی تھذیب التھذیب فی ترجمتہ: روی لہ الترمذی و ابن ماجہ حدیثا واحدا فی السؤال عن الفراء ، و السمن ، والجبن الحدیث۔(۳؍۴۴)۔ حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں لکھتے ہیں : سیف بن ہارون البرجمی بضم الموحدۃ والجیم أبو الورقاء الکوفی ضعیف أفحش ابن حبان القول فیہ من صغار الثامنۃ أیضاً‘(۱۴۲)