کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 529
جواب میں اس فقیر الی اللہ الغنی نے لکھا :’’زمین کو بے کاشت کیے چھوڑ دینا زمین کی آمدنی سے محرومی کے ساتھ ساتھ زمین کو خراب کرنے کا اندیشہ ہے۔‘‘ اس پر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :’’ پھر لازم ہے کہ وہ کاشت ہو اور یہ مرتہن ہی کرے گا۔‘‘ میرے جواب سے نہ تو کاشت کیے جانے کا لازم ہونا نکلتا ہے اور نہ ہی کاشت کرنے کا مرتہن پر مقصود ہونا نکلتا ہے پھر ان دونوں چیزوں کی کتاب و سنت اور عقل میں کوئی دلیل بھی نہیں ۔ (۶).....جناب نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال کیا ’’ کاشت کرنا شے مرہونہ کی حفاظت و دیکھ بھال تصور ہو گی‘‘ اس پر اس فقیر الی اللہ الغنی نے جواب دیا’’ حفاظت سے آپ کیا مراد لیتے ہیں ؟‘‘ بتانے پر ہی جواب دیا جا سکتا ہے۔‘‘ اس کو پڑھ کر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :’’ حفاظت سے مراد کاشت کرنا ہی ہے اگر کاشت نہ کیا جائے تو زمین بنجر وغیرہ ہو جائے گی اور اس کی قدر کم ہو تی رہے گی‘‘ آپ اپنے پہلے مکتوب والی عبارت’’کاشت کرناشے مرہونہ کی حفاظت و دیکھ بھال .....الخ‘‘ میں حفاظت دیکھ بھال کی جگہ کاشت کرنا‘‘ لکھ کر پڑھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کا فرمانا ’’حفاظت سے مراد کاشت کرنا ہی ہے‘‘ بالکل غلط ہے کیونکہ’’کاشت کرنا شے مرہونہ کی کاشت کرنا تصور ہوگی‘‘ عبارت بے معنی و بے مقصد ہے۔ پھر زمین کو کاشت کیے بغیر رکھنا شریعت میں کوئی ممنوع و حرام نہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے : (( عن أبی ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم : مَنْ کانت لہ أرض فلیزرعھا أو لیمنحھا أخاہ فإن أبی فلیمسک أرضہ))(۱/۳۱۵) [’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو تو وہ خود بوئے ورنہ اپنے کسی (مسلمان) بھائی کو دے دے اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو اسے یوں ہی خالی چھوڑ دے۔‘‘] (۷).....آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال کیا ’’شی مرہونہ بطورِ امانت ہے یا ضمانت‘‘ قرضہ واپس نہ ملنے کی صورت میں اسے بیچ کر قرضہ وصول کیا جا سکتا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں اس فقیر الی اللہ الغنی نے لکھا’’ امانت ہے ، مالک راہن کی اجازت ہو تو فروخت کر سکتا ہے ورنہ نہیں ۔‘‘ اس کے بعد آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :’’ امانت نہیں ضمانت ہے ، امانت کا قانون اور ہے اور ضمانت کا قانون اور ہے۔‘‘ تو محترم مؤدبانہ گزارش ہے آپ امانت اور ضمانت دونوں کے قانون جدا جدا کتاب و سنت سے بیان فرمائیں تو بات کھل جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (۸)…بخاری اور ترمذی شریف میں جو حدیثیں ہیں انتفاع بالرہن والی وہ صحیح تو یہ حدیثیں جانور پر بند ہیں