کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 528
غلط لکھا جا چکا ہے ، جب آپ نے سود کی تعریف ہی نہیں لکھی تو اسے سود لکھنا چہ معنی دارد؟‘‘ کسی چیز کو غلط لکھنے سے وہ غلط نہیں ہو جاتی جب تک اس کے غلط ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ زمین ٹھیکہ یا بٹائی پر دینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا ، ہاں کراء الارض کی مخصوص صورتوں سے منع فرمایا ہے جن میں ٹھیکہ اور بٹائی شامل نہیں ۔ رہی آپ کی ’’چہ معنی دارد‘‘ والی بات اس کا جواب ہے یہ کہ وہ معنی رکھتا ہے جو معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول’’ أوہ عین الربا‘‘ رکھتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ربا سود کی تعریف کیے بغیر عین ربا سود کا حکم لگا دیا تو کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرما ئیں گے کہ سود کی تعریف نہیں کی تو اسے سود قرار دینا چہ معنی دارد؟ پھر غور فرمائیں مرتہن نے اگر دو لاکھ راہن کو قرض دے کر زمین رہن لی تھی اور زمین کاشت کرتا رہا اس کی آمدنی اس کے پاس رہی اور راہن سے دو لاکھ بھی وصول کر نا ہیں تو یہ آپ کی نقل کردہ دونوں تعریفوں کے مطابق بھی سود ہی بنتا ہے خواہ بعض صورتوں میں ہی بنے۔ (۴).....جناب نے پہلے اپنے مکتوب میں سوال کیا:’’ اگر کاشت نہ کیا جائے تو راہن کا کوئی فائدہ ہو گا؟‘‘ تو اس فقیر الی اللہ الغنی نے جواب میں لکھا:’’ اگر کاشت نہ کرے تو زمین خراب ہونے کا اندیشہ ہے پھر مالک راہن اپنی زمین کی آمدنی سے بھی محروم ہو گا۔‘‘ اس پر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں فرماتے ہیں :’’اگر مرتہن کو نفع کی بجائے نقصان ہو تو وہ یہ (Risk) کیوں لے گا۔ رہن پر قبضہ مرتہن کا ہے مالک اصل اس سے فائدہ کیسے اُٹھائے گا؟‘‘ تو محترم آپ کی اس عبارت کے پہلے جملہ’’اگر مرتہن کو نفع کی بجائے نقصان ہو تو وہ یہ (Risk) کیوں لے گا‘‘کا تو میرے جواب’’ اگر کاشت نہ کرے…الخ‘‘ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی ربط و تعلق نہیں پھر لطف یہ کہ اس جملہ کا آپ کے اپنے سوال ’’اگر کاشت نہ کیا جائے …الخ‘‘ کے ساتھ بھی کسی قسم کا کوئی ربط و تعلق نہیں ۔ رہی آپ کی بات’’ رہن پر قبضہ مرتہن کا ہے مالک اصل اس سے فائدہ کیسے اُٹھائے گا‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارض خیبر نصف و نصفی بٹائی پر کاشت کی خاطر خیبر والوں کو دی تھی تو اب قبضہ خیبر والوں کا ہے اور اس سے اصل مالک حصہ لے کر فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں بلکہ اسی طرح اگرمرتہن قابض مرہونہ زمین کاشت کر لے اور رائج الوقت ٹھیکہ یا حصہ اصل مالک کو دے تو قبضہ مرتہن کا ہی ہو گا اور فائدہ اصل مالک راہن بھی اُٹھاتا رہے گا۔ اگر مرتہن ارض مرہونہ کاشت کرے مگر اصل مالک راہن کو ٹھیکہ یا حصہ نہ دے تو وہ سود خور بنے گا۔ (۵)…آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال کیا ’’ کیا زمین بے کاشت چھوڑ دینا ٹھیک ہے؟‘‘ اس کے