کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 525
فرمایا ہے۔ نیز صحیح مسلم میں ہے: (( حدثنا یحیی بن یحیی قال: قرأت علی مالک عن ربیعۃ بن أبی عبدالرحمن عن حنظلۃ بن قیس أنہ سأل رافع بن خدیج عن کراء الارض ، فقال: نھی رسول اللّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم عن کراء الارض۔ قال فقلت: بالذھب والورق؟ فقال: أما بالذھب والورق فلا بأس بہ۔ حدثنا اسحاق قال: أنا عیسی بن یونس قال: ناالأوزاعی عن ربیعۃ بن ابی عبدالرحمن قال حدثنی حنظلۃ بن قیس الانصاری قال سالت رافع بن خدیج عن کراء الارض بالذھب والورق؟ فقال: لا بأس بہ انما کان الناس یواجرون علی عہد رسول اللّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم علی الماذیانات، وأقبال الجداول ، وأشیاء من الزرع ، فیھلک ھذا ، ویسلم ھذا ، ویسلم ھذا ویھلک ھذا فلم یکن للناس کراء الا ھذا ، فلذک زجرعنہ ، فأما شیء معلوم مضمون فلا بأس بہ حدثنا عمروالناقد قال: ناسفیان بن عیینۃ عن یحیی وھو ابن سعید عن حنظلۃ الزرقی أنہ سمع رافع بن خدیج یقول: کنا أکثر الأنصار حقلا قال: کنا نکری الأرض علی أن لنا ھذہ ، ولھم ھذہ ، فربما أخرجت ھذہ ولم تخرج ھذہ فنھا ناعن ذلک ، وأما الورق فلم ینھنا)) [1] (۲/۱۳) [’’حنظلہ بن قیس نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا زمین کو کرایہ پر چلانا کیساہے؟ انہوں نے کہا: منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے ۔ میں نے کہا: کیا چاندی اور سونے کے عوض میں بھی کرایہ دینا منع ہے؟ انہوں نے کہا: چاندی اور سونے کے بدل تو قباحت نہیں ۔ حنظلہ بن قیس انصاری نے کہا میں نے رافع بن خدیج سے پوچھا زمین کو کرایہ پر دینا سونے اور چاندی کے بدلے کیسا ہے؟ انہوں نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہر کے کناروں پر اور نالیوں کے سروں پر جو پیدوار پر زمین کرایہ پر چلاتے تو بعض وقت ایک چیز تلف ہو جاتی ، دوسری بچ جاتی اور کبھی یہ تلف ہوتی اور وہ بچ جاتی ۔ پھر بعضوں کو کچھ کرایہ نہیں ملتا مگر وہی جو بچ رہتا ، اس لیے آپ نے منع فرمایااس سے ۔ لیکن اگر کرایہ کے بدل کوئی معین چیز( روپیہ وغیرہ) جس کی
[1] صحیح مسلم/کتاب البیوع/باب کراء الارض۔