کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 522
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کی تاریخ بیان فرمائی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربا و سود کی تعریف ذکر فرمائی۔ اب اگر کوئی دانشور صاحب فرمائیں ’’بہتر ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سود کی تاریخ بیان کرتے پھر سود کی صحیح تعریف واضح کرتے پھر ان مخصوص صورتوں کو ربا و سود گردانتے تو بہتر ہوتا‘‘ تو فرمائیے ان دانشوروں کی بات درست ہے یا ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ ا للّٰه اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾الاٰیۃ یہ اور ﴿خَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صلی ا للّٰه علیہ وسلم ﴾ کو اپنا ناحق ہے؟ پھر یہ چیز بھی ملحوظ رکھیں کہ قرآن مجید میں صلاۃ ، زکوٰۃ ، صیام ، حج ، عمرہ ، زنا ، رباسود، سرقہ ، قصاص اور ردہ و ارتداد وغیرہ کے احکام موجود ہیں حالانکہ ان چیزوں کی تاریخ و تعریف قرآن مجید میں نہیں ۔ آیا یہ بھی بہتر ہے یا نہیں ؟ (۱).....آپ نے پہلے مکتوب میں سوا ل کیا ’’کرایہ پر زمین دینا کیسا ہے؟ اس فقیر الی اللہ الغنی نے جواب دیا ’’کرایہ پر زمین لینا دینا درست ہے بشرطیکہ کرایہ کی ناجائز و حرام صورت نہ ہو۔‘‘ جس کا صاف صاف مطلب ہے زمین کے کرایہ کی کوئی صورت ناجائز اور حرام بھی ہے ۔ پھر آپ کے پہلے مکتوب میں پیش کردہ سوال ’’ٹھیکہ یا کرایہ پر زمین تو بخاری میں رافع بن خدیج والی حدیث میں نفی ہے ، آپ نے جائز کیسے لکھ دیا‘‘ کے جواب میں اس فقیر الی اللہ الغنی نے لکھا :’’ زمین ٹھیکہ یا بٹائی پر لینا دینا درست ہے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کرائے کی ایک مخصوص صورت سے منع کیا گیا ہے وہ صورت یہ ہے کہ سفیدہ زمین کاشت کرنے سے قبل قطعوں میں تقسیم کر لی جائے کچھ قطعے مالک کے اور کچھ قطعے مزارع کے ،بعد میں بیج ڈالا جائے کبھی مزارع کے کیاروں میں فصل نہ ہوتی کبھی مالک کے کیاروں میں کچھ نہ ہوتا ، اس خاص صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے چنانچہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی احادیث سے واضح ہوتا ہے۔‘‘ یہ دونوں چیزیں پڑھنے کے بعد آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :’’ کرایہ یا ٹھیکہ پر زمین لینا دینا درست نہیں مندرجہ ذیل ملاحظہ فرمائیں …..... اس میں صاف لکھا :((نَھَی النَّبِیُّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم عَنْ کِرَائِ (الْاَرْضِ)…الخ)) ‘‘ تو محترم پہلے لکھ چکا ہوں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کراء الأرض کی ایک مخصوص صورت سے منع فرمایا ہے جس صورت کی نشاندہی بھی پہلے کر چکا ہوں تو ان نہی والی روایات میں ایک مخصوص صورت سے نہی مراد ہے ہر قسم کے کراء الارض سے نہی مراد نہیں ۔ دیکھئے بٹائی کی صورت میں کراء الارض درست وجائز ہے اگر نہی والی حدیث میں کراء الارض کی ہر قسم سے نہی مراد ہو تو بٹائی والی صورت بھی ناجائز اور حرام ٹھہرے گی۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے قرآن مجید میں تین جگہ دم و خون کی حرمت کا ذکر ہے ، ساتھ مسفوح کی قید نہیں اور ایک جگہ دم و خون کے ساتھ مسفوح کی قید آئی ہے تو اب باقی تین جگہوں میں دم مسفوح مراد ہو گا نہ کہ عام و ہر قسم کا دم و خون۔ اگر کوئی شخص تین جگہوں میں مذکور دم و خون کو لے کر کہنا شروع کر دے کہ ہر قسم کا خون حرام ہے خواہ