کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 520
نفعہ باطلا وان مکن صاحبہ من رکوبہ خرج عن یدہ وتوثیقہ…و یعوض عنھما بالنفقۃ ولہ فیہ حق فلہ ان یرجع ببدلہ ومنفعۃ الرکوب والحلب یصح ان یکونا بدلا فاخذھا خیر من ان تھدد علی صاحبھا باطلا ویلزم بعض ما انفق المرتھن.....فالحاصل ان حدیث الباب صحیح محکم لیس بمنسوخ ولا یردہ اصل من اصول الشریعۃ ولا اثر من الآثار الثابتۃ وھو دلیل صریح فی جواز الرکوب علی الدابۃ المرھونۃ بنفقتھا وشرب لبن الدر المرھونۃ بنفقتھا)) [جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی جلد:۲،ص:۲۴۶،۲۴۷ مطبوعۃ دہلی] عربی عبارت کا ترجمہ:’’پس ا س حدیث میں دلیل ہے جو حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں فرمایا اور اسی وجہ سے ان کے بعض نے فرمایا ہے یقینا حدیث صحیح ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے گروی چیز پر سوار ہوا جائے گا اور دودھ دوھا جائے گا اور خرچہ اس شخص پر ہو گا وہ جو سوار ہو گا۔ خلاف عقل ہے پس یقینا اس حدیث نے غیر مالک کے لیے سواری کرنا اور دوھنا جائز قرار دیا ہے۔ بوجہ خرچہ کرنے کے اور ایسے مالک کا حق ہے اور گروی لینے والے کے لیے قبضہ کا حق ہے اور یقینا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مشروع قرار دیا ہے ، گروی چیز کا قبضہ مرتہن کے ہاتھ ہی ہے۔ پس جب قبضہ اس کے ہاتھ میں تو اس پر سوار نہ ہو اور اس کو دوھے نہ تو اس کا نفع باطل گیا اور اگر وہ اس کے مالک کو اختیار دے تو اس کے قبضہ سے خارج ہو جائے گی اور ان دونوں چیزوں کا نفع اُٹھانا خرچ کا بدل دیا جاتا ہے۔ اور مرتہن کے لیے اس میں حق ہے لوٹنے کا اس کے بدل کے ساتھ اور نفع سوار ہونے کا اور دوھنے کا صحیح ہوتا ہے ، دونا دنوں کا بدل ، پس لینا نفع اس کا بہتر ہے اس بات سے کہ رائیگاں کرنا باطل ہے اس منفعت کے مالک پر اور لازم ہے کہ بدل دے دیا جائے گا جو خرچہ کیا گروی لینے والے نے ۔ پس ما حاصل یعنی تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ باب کی حدیث صحیح محکم ہے منسوخ نہیں ہے اور نہ ہی رد کرنا اس حدیث کو کوئی اصل شریعت کے اصولوں سے اور نہ ہی اثر ثابت شدہ آثار سے اور وہ حدیث دلیل صریح ہے گروی شدہ جانور ہو سوار ہونے کی جو از کی اور جانور گروی شدہ دودھ پینے کے جواز کی۔ (جامع الترمذی بمعہ تحفۃ الاحوذی) ((عَن سعید بن المسیب ان رسول اللّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم قال لا یغلق الرھن)) [مؤطا امام مالک ص:۵۳۵۔۵۳۷۔ مطبوعۃ نور احمد اصح المطابع آرام باغ ،کراچی]