کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 516
ہو۔ اگر کتاب و سنت میں حلال یا حرام نہیں کہا گیا تو پھر درست نہیں خواہ مسئلہ اتفاقی ہی کیوں نہ ہو۔ واللہ اعلم ۶/۹/۱۴۲۳ھ س: بہتر ہوتا کہ آپ پہلے سود کی تاریخ (Back Ground) لکھتے پھر سود کی صحیح تعریف لکھتے پھر اس کو سود گردانتے، تو بہتر ہوتا۔ کرایہ یا ٹھیکہ پر زمین لینا دینا درست نہیں مندرجہ ذیل ملاحظہ فرمائیں : (مختصر صحیح البخاری مترجم ، دوسرا ایڈیشن جولائی ۲۰۰۰ء ، ابن ابراہیم ص:۳۷۸، حدیث:۱۰۸۴،۱۰۸۵،۱۰۸۶۔ اس میں صاف لکھا ہے : ((نھی النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم عَنْ کِرائِ المَزَارِعِ فترک کراء الارض)) [1] [نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا ہے] انہوں نے کھیت کرایہ پر دینا چھوڑ دیا۔(صحیح بخاری؍کتاب المزارعۃ)اس پر مزید دیکھیں : (تفہیم القرآن ، جلداوّل، ص:۲۱۰، ۲۱۲۔ صاف کرایہ کی نفی ہے۔) مزید دیکھیں : اسلام میں حلال و حرام از یوسف القرضاوی ص:۳۳۴تا ۳۳۶ پر لکھتے ہیں ’’اس کے برخلاف ایک فریق کے حصے کا تعین کرنا کہ وہ قطعی فائدے میں رہے اور دوسرے کو غیر یقینی صورت کے حوالے کرنا کہ اس کے حصے میں شاید پسینہ بہانے کے سوا کچھ نہ آئے یہ صورت سود اور جوئے کے کس قدر مشابہ ہے ۔ اور ایسا ہوتا ہے ۔ سود کی تعریف : …طے شدہ رقم پر طے شدہ مدت پر طے شدہ اضافہ سود ہے۔ از مودودیؒ سود کی تعریف : .....جاہلی دَور کا سودیوں تھا کہ طے شدہ مدت کے لیے دس دینار قرض دیتا اور وصولی پندرہ کی کرتا۔ منہاج المسلم از ابو بکر جابر ۔ اس کتاب کے ص:۵۷۲ پر لکھتے ہیں کہ راہن کے مفلس یا فوت ہو جانے پر قرض مطالبہ کرنے پر نہ ملے تو مرہونہ شے بیچ کر اپنا قرضہ پورا کیا جائے ۔ تو اگر بقول آپ شے مرہونہ امانت ہے تو اس میں تصرف جائز نہیں یہاں تو فروخت کیا جا رہا ہے چلیں آپ کہیں کہ ایسی صورت میں کیا ہو گا؟ (۲)…یہ صحیح ہے اصل ملکیت راہن کی رہے گی اگر وہ مقررہ میعاد تک قرضہ واپس کر دے ورنہ تو فروخت کا حکم ہے ( مثلاً ایک شخص بندوق رہن رکھ کر قرض لیتا ہے اس کی قیمت کے برابر اب وہ چار سال بعد بھی قرضہ واپس نہ کرے اور کہے کہ وہ بندوق رکھو اور اس کی قیمت کم ہو قرضہ سے تو کیا ہو گا) میں نے عرض کیا کہ اب یہ کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اور ایسا ہو رہا ہے۔ (۳).....ٹھیکہ یا کرایہ غلط لکھا جا چکا ہے ۔ جب آپ نے سود کی تعریف ہی نہیں لکھی تو اسے سود لکھنا چہ معنی دارد۔
[1] بخاری؍کتاب الزارعۃ؍باب ما کان من اصحاب النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم یواسی بعضھم بعضاً فی الزارعۃ والثمرۃ۔