کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 510
((لَا یُغْلَقُ الرَّھْنُ مِنْ صَاحِبِہِ الَّذِیْ رَھَنَہٗ ، لَہُ غُنْمُہٗ وَعَلَیْہِ غُرْمُہٗ))[1] ’’رہن اس کے مالک ’’راہن‘‘ سے نہ روکی جائے۔ اس کی بڑھوتری اس کی ہے اور اسی پر اس کا تاوان ہے۔‘‘ (وضاحت آ رہی ہے) انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( رَھَنَ رَسُوْلُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم دِرْعًا عِنْدَ یَھُوْدِيٍّ فِي الْمَدِیْنَۃِ وَأَخَذَ مِنْہُ شَعِیْرًا لِأَھْلِہٖ))[2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک یہودی کے پاس زرہ’’رہن‘ ‘ رکھی اور اس سے اپنے گھر کے لیے جو ( بطورِ قرض) حاصل کیے۔‘‘ رہن کے احکام: 1۔’’مرتہن‘‘ کا ’’گروی رکھی گئی چیز‘‘ پر قبضہ کرتے ہی گروی رکھی گئی چیز’’ راہن‘‘ کو لازم ہوجاتی ہے(یعنی راہن پر لازم ہے کہ اسے مرتہن کے پاس رہنے دے) بنا بریں ’’راہن‘‘ اگر واپس لینا چاہے تو نہیں لے سکتا ، مگر ’’مرتہن‘‘ اسے واپس کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، اس لیے کہ رہن سے اس کا حق وابستہ ہے۔ 2۔جو چیزیں فروخت کرنا درست نہیں ان کا ’’رہن ‘‘ رکھنا بھی صحیح نہیں ہے ۔ البتہ کھیتی اور پھل جو ابھی پکے نہیں ہیں ، کی ’’بیع‘‘ درست نہیں ، مگر گروی رکھے جا سکتے ہیں ، اس لیے کہ اس میں ’’مرتہن‘‘ کو دھوکا نہیں لگے گا۔ جبکہ کھیتی یا پھل تباہ بھی ہو جائے تو قرض ’’راہن‘‘ کے ذمہ ثابت ہے۔ 3۔’’رہن‘‘ کی میعاد ختم ہونے پر ’’مرتہن‘‘ قرض کا مطالبہ کرے۔ اگر ’’راہن ‘‘ ادائیگی کر دے تو ’’رہن‘‘ واپس کر دے ، ورنہ اس میں سے اپنا حق وصول کر لے ۔ا گر کاروبار کی وجہ سے ’’گروی‘‘ میں آمدنی اور اضافہ حاصل ہوا ہے ، تو اسے فروخت کر کے اپنا حق رکھ لے اور زائد واپس کر دے۔ لیکن اگر ’’رہن‘‘ کی فروخت سے پورے حق کی ادائیگی نہیں ہوتی تو بقیہ’’ راہن‘‘ کے ذمہ قرض ہے۔ 4۔’’رہن‘‘ ’’مرتہن‘‘ کے ہاتھ میں امانت ہے ، اگر اس کی کوتاہی یا زیادتی سے تلف ہو جائے تو وہ ’’ضامن‘‘ ہو گا ، ورنہ ’’ضامن‘‘ نہیں ہے اور قرض ’’راہن‘‘ کے ذمہ باقی رہے گا۔ 5۔’’رہن‘‘ کو ’’مرتہن‘‘ کے علاوہ کسی امین شخص کے پاس بھی رکھا جاسکتا ہے ، اس لیے کہ ’’رہن‘‘ کا اصل مقصد
[1] مسند شافعی ، سنن دار قطني و سنن ابن ماجۃ وھو حسن لکثرۃ طرقہ۔ [2] بخاری؍کتاب البیوع ؍باب شراء النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم بالنسیئۃ