کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 502
لگوائے تو اس غرض سے وہ مجھے ہر مہینے گرمیوں میں پانچ سو روپے دیتا ہے۔ سردیوں میں نہیں دیتا۔ یہ چوری نہیں ۔ کیا یہ پیسے حرام ہیں ؟ اس کے بارے میں فرمائیں ؟ اور اگر ایک آدمی نے کمرشل اور گھریلو میٹر دونوں لگوائے ہیں ۔وہ آدھا کام گھریلو میٹر پر کرتا ہے اور آدھا کمرشل پر ۔ کیونکہ کمرشل کا ریٹ بہت زیادہ ہے ۔ وہ غریب آدمی اتنے کمائے گا نہیں جتنے وہ بل میں ادا کرے گا۔ اس لیے وہ آدھا آدھا استعمال کرتا ہے ۔ حالانکہ یہ بھی چوری نہیں کیونکہ ہمیں تو یونٹ چاہئیں ۔ وہ مجھے بھی ہر ماہ پیسے دیتا ہے کیا یہ بھی حرام ہیں ؟ اس کے بارے میں مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ج: آپ کو پیسے دینے والا بجلی چور اور آپ رشوت و حرام خور۔ اس لیے دونوں اپنے کیے پر نادم ہوں ، تائب ہوں اور آیندہ کے لیے بجلی چوری اور رشوت و حرام خوری چھوڑ دیں اور کاروبار کے لیے حلال صورتیں اختیار فرمائیں اور حرام صورتوں سے اجتناب کریں ۔ ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطَانِ اِنَّـہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo﴾ [البقرۃ:۲/۱۶۸][’’لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘] ۶/۴/۱۴۲۱ھ س: ٹیکس ادا نہ کرنا ۔ ٹیکس یا بجلی چوری کا عام چور کا حکم ہے یا جائز ہے؟ (ابو ضماد ، شیخو پورہ) ج: یہ جرائم غش و دھوکا میں شامل ہیں ۔[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا)) [1] ’’جس نے دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں ۔‘‘] ۲۲/۷/۱۴۲۱ھ س: بجلی اور جنگل کی لکڑی کی چوری ہے کہ نہیں یعنی بجلی کو بلیک کر کے یا کسی اور طریقے سے استعمال کیا جائے کہ حکومت کے اکاؤنٹ میں وہ خرچ بجلی نہ آ سکے۔ اور جنگل کی لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرنا یا اپنے استعمال میں لانا کیسا ہے؟ ساتھ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ حکومت نے ہر چھوٹی بڑی چیز پر ٹیکس بھی لگا یا ہوا ہے ۔ (سجاد الرحمن) ج: اگر حکومت کی طرف سے عام اجازت ہے تو چوری نہیں ورنہ چوری ہے۔ ۱۳/۱/۱۴۲۴ھ س: میں سرکاری ملازم ہوں ، میں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ میں رشوت نہیں لوں گا میرے محکمہ نے میرے ساتھ کچھ زیادتی اس طرح کی ہے کہ میری ترقی کا کیس بے جا اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر روک لیا گیا ہے۔ مجھے اپنا یہ حق حاصل کرنے کے لیے یا تو عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا یا اعلیٰ افسروں کو نذرانہ دینا پڑے گا۔
[1] مسلم؍کتاب الایمان؍باب قول النبی من غشنا فلیس منا۔ ترمذی؍کتاب البیوع؍باب کراھۃ الغش فی البیوع۔