کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 50
انسان اپنے خالق کو پہچانے بغیر اس ہدایت کی پیروی نہیں کر سکتا جو اسے دنیا اور آخرت میں سرفراز کر سکتی ہے، ورنہ تو خسارے کا شکار رہے گا ۔ لہٰذا انسان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ علم ہی ایمان کا راستہ ہے: اگر انسان صحیح ایمان تک پہنچنا چاہتا ہے تو وہ علم کا راستہ اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿أَفَمَنْ یَّعْلَمُ أَنَّمَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ ھُوَ أَعْمٰی ط إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوالْأَلْبَابِ o ﴾ [ الرعد:۱۹] ’’ بھلایہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نارل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں ۔ نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں ۔‘‘ اس لیے کہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کے پیچھے لگ جانے والوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ذرا سی آزمائش یا معمولی سا شبہ بھی ان کو ڈانواں ڈول کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ط إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوالْأَلْبَابِ ﴾[ الزمر:۹] ’’ ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکسا ں ہو سکتے ہیں ؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کیا کرتے ہیں ۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ َومِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ ا للّٰه عَلٰی حَرْفٍ ج فَإِنْ أَصَابَہٗ خَیْرٌ نِ اطْمَأَنَّ بِہٖ ج وَإِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ ج خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ط ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ﴾[ الحج:۱۱] ’’ اور لوگوں میں کو ئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا، اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی،یہ ہے صریح خسارہ ۔‘‘