کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 493
بیوی سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں ان کے لیے چار مہینے کی مدت ہے ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں ، تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اگر طلاق کا ہی قصد کرلیں تو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ ] 2۔متذکرہ الفاظ ایلاء میں داخل ہیں ۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں اس معاملہ کو نپٹایا جائے گا۔ دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص موقع پر فرمایا: ’’ میں آئندہ شہد نہیں پیوں گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو قسم قرار دیا۔ ﴿قَدْ فَرَضَ ا للّٰه لَکُمْ تَحِلَّۃَ أَیْمَانِکُمْ ط﴾ [التحریم:۲] [’’ تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے۔‘‘ ] 3۔اس صورت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ 4۔ ہاں ! اس صورت میں بھی طلاق نافذ ہوجاتی ہے۔ طلاق واقع یا نافذ ہونے کے لیے بیوی کو طلاق کا علم ہونا یا بیوی کا طلاق نامہ کو وصول کرنا اسلام میں کوئی شرط نہیں اور نہ ہی لازم۔ 5۔اگر اولاد اپنے اس جرم یا کسی اور جرم کی بناء پر کافر دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکی ہے اور والد مسلم ہے تو پھر وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لاَ یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ ، وَلاَ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ۔)) [1] [ ’’ نہیں وارث ہوگا مسلمان کافر کا اور نہ کافر وارث ہوگا مسلمان کا۔ ‘‘ ] 6۔ جواب نمبر پانچ میں اس کا جواب بیان ہوگیا ہے۔ واللہ اعلم۔ ۱۳ ؍ ۳ ؍ ۱۴۲۲ھ ٭٭٭
[1] بخاری ؍ کتاب الفرائض ؍ باب لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم