کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 488
سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ جبکہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضا مند ہوں ۔ ‘‘ ] 2۔دوسری طلاق کے آغاز سے لے کر عدت ختم ہونے تک سارا وقت وقت رجوع ہے۔ اس دوران کسی وقت بھی میاں صاحب اپنی بیوی سے رجوع کرسکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَبُعُوْلَتُھُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ إِنْ أَرَادُوْا إِصْلَاحًا ط﴾ [البقرۃ:۲۲۸] [ ’’ ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حق دار ہیں ، اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو۔ ‘‘ ] ۱۷ ؍ ۵ ؍ ۱۴۲۱ھ س: ایک شادی شدہ بندہ اچانک لاپتہ ہوگیا اور 7،8 سال تک کوئی خبر نہیں دی تو اس کی بیوی آگے شادی کرسکتی ہے کہ نہیں ؟ اور اگر کوئی عورت علماء کے فتوے سے شادی کرلے اور پرانا خاوند بھی 10، 12 سال کے بعد آجائے تو وہ عورت کس کے ساتھ رہے گی؟ (عبداللہ بن ناصر ، پتوکی) ج: اس کا مجھے علم نہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقع پر لقطہ والی حدیث پیش کی ہے۔ [’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گری ہوئی چیز کے متعلق دریافت کیا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے بندھن اور تھیلی کی پہچان رکھ اور ایک سال تک (لوگوں میں ) اس کا اعلان کرتا رہ اس دوران اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کردے ، اگر نہ آئے تو اسے اپنے مال میں شامل کرلے۔ ‘‘[1] ’’ خاوند اگر غائب ہوجائے اور اس کا کوئی علم نہیں رہا کہ کہاں ہے تو عورت کو شرعی قاضی کے ذریعہ ’’فسخ نکاح ‘‘ کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘ [2] ہمارے خیال میں صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مدت کا تعین نہ ہی کیا جائے۔ کیونکہ شرعی امور میں مدتوں کی تعیین میں قیاس و رائے کا دخل نہیں ہوتا اور نص بھی کوئی نہیں ۔ اس لیے گم شدہ شخص کا فیصلہ قاضی اور حاکم وقت کا وقتی اجتہاد اور رائے ہے۔ کیونکہ شہر ، اشخاص اور احوال کے مختلف ہونے کی بناء پر صورت حال بھی مختلف ہوجاتی ہے۔ ] [3] ۲۴ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۵ھ س: میاں بیوی پر سکون زندگی گزار رہے تھے کہ خاوند گھر سے چلا گیا اور چار سال تک کوئی خبر نہ آئی کہ زندہ ہے یا مردہ؟ چار سال کے بعد عورت نے نئی شادی کرلی۔ اور اب 5 سال بعد پہلا خاوند واپس آگیا ہے۔ اب بیوی کس خاوند کے پاس رہے؟ نیز مفقود الخبرکی بیوی کتنا انتظار کرے؟
[1] بخاری ؍ کتاب الطلاق ؍ باب حکم المفقود فی اھلہ ومالہ [2] منھاج المسلم ؍ ص:۶۳۲ [3] تفھیم المواریث ، ص:۱۰۲