کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 486
الخراسانی ، وقال: إنہ أتی فی ھذا الحدیث بزیادات لم یتابع علیہا ، وھو ضعیف فی الحدیث لا یقبل ما تفرد بہ۔ کذا ذکرہ الزیلعی۔ ۱۰ھ (۴؍۳۲)۔)) محدّث وقت شیخ البانی .....رحمہ اللہ تعالیٰ .....نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ دیکھیں :[1] 4۔ یہ روایت بھی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ چنانچہ عون المعبود میں لکھا ہے: (( واستدلال بالحدیث علی أن الطلاق الثلاث مجموعۃ تقع ثلاثا ووجہ الاستدلال أنہ صلی ا للّٰه علیہ وسلم أحلفہ أنہ أراد بالبتۃ واحدۃ (یقول النور فوری: فی روایۃ ابن جریج لفظۃ: ثلاثا۔ بدل لفظۃ: البتۃ۔) فدل علی أنہ لو اراد بھا أکثر لوقع ما أراد ، ولولم یفترق الحال لم یحلفہ۔ وأجیب بأن الحدیث ضعیف ، ومع ضعفہ مضطرب ، ومع اضطرابہ (یقول النور فوری: وضعفہ) معارض بحدیث ابن عباس أن الطلاق الثلاث کان علی عہد رسول ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم واحدۃ ، فالاستدلال بھذا الحدیث لیس بصحیح وإن شئت الوقوف علی ضعفہ واضطرابہ فراجع التعلیق المغنی شرح الدار قطنی ، فإنہ قد بین فیہ أخونا المعظم أبو الطیب ضعف الحدیث واضطرابہ بالبسط والتفصیل۔ ۱۰ھ (۲؍۲۳۱)۔)) اس روایت کے ضعف کی مزید تفصیل دیکھنا چاہیں تو محدثِ وقت شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مایۂ ناز کتاب إرواء الغلیل کا مطالعہ فرمالیں ۔ انہوں نے جلد نمبر: ۷ میں صفحہ نمبر: ۱۳۹ سے لے کر صفحہ نمبر: ۱۴۵ تک چھ صفحات میں سیر حاصل بات چیت سپرد قلم فرمانے کے بعد لکھا ہے: (( وجملۃ القول أن حدیث الباب ضعیف ، وأن حدیث ابن عباس المعارض لہ أقوی منہ۔ ۱۰ھ (۷؍۱۴۵ ؍ ح: (۲۰۶۳)۔)) 5۔عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ والی حدیث لعان کے بارہ میں ہے اس سے زیادہ سے زیادہ یہی بات نکالی جاسکتی ہے کہ لعان والی بیوی کو بعد از لعان میاں صاحب بیک وقت تین طلاقیں دے سکتے ہیں رہایکبارگی تین طلاقوں کا تین ہی واقع ہوجانا تو وہ اس حدیث سے بھی نہیں نکلتا۔ 6۔ آپ لکھتے ہیں : ’’ امام بخاری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں ۔‘‘ الخ۔ بعد میں آپ فرماتے ہیں : ’’ گویا تین طلاق واقع ہوگئی تھیں ۔‘‘ آپ نے حدیث
[1] إرواء الغلیل (۷؍۱۱۹۔ ۱۲۰؍ ح (۲۰۵۴)