کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 479
میں ہوتا ہے، پھر فسخ نکاح کی عدت اور طلاق کی عدت میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ نیز بعض طلاقوں کے بعد میں بیوی سے بلا تجدید نکاح و صلح رجوع کرسکتے ہیں ۔ جبکہ فسخ نکاح میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ 2۔بعض صورتوں میں درست ہے اور بعض صورتوں میں درست نہیں ۔۱۷ ؍ ۱۰ ؍ ۱۴۲۲ھ س: جناب سائل نے اپنی بیوی کو یکبار (ایک ہی سانس میں ) تین بار طلاق کہہ دیا ہے۔ یعنی کہ دو دفعہ طلاق ، طلاق اور تیسری مرتبہ کہ میں نے تمہیں تین طلاق دے دی ہیں ۔ جنابِ محترم بندہ کو طلاق دینے کا کوئی ارادہ یا منصوبہ نہ تھا اور اس دورانیہ کو پانچواں روز ہے۔ بندہ اپنے غصہ پر نادم اور پشیمان ہے اور رجوع کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا بندہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ؟ ج: صورتِ مسؤلہ میں ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔ کیونکہ ایک مجلس کی تین یا تین سے زائد طلاق ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔ صحیح مسلم ؍ کتاب الطلاق میں ہے : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :تین طلاقیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پورے دور میں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی طلاق ہوا کرتی تھیں ۔ اور قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَبُعُوْلَتُھُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ إِنْ أَرَادُوْا إِصْلَاحًا ط﴾ نیز قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ فَـلَا تَعْضُلُوْھُنَّ أَنْ یَّنْکِحْنَ أَزْوَاجَھُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط﴾ الآیۃ۔ تو صورتِ مسؤلہ میں عدت کے اندر صلح بلا نکاح درست ہے اور عدت کے بعد صلح بنکاحِ جدید صحیح ہے۔ واللہ اعلم ۔ ۲۰ ؍ ۹ ؍ ۱۴۲۳ھ س: میں نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین دفعہ طلاق ان الفاظ سے کہی میں نے تجھے طلاق دی۔ میری طرف سے تجھے تین طلاقیں ۔ تو مجھ پر حرام ہے۔ اس طرح تین طلاقیں ہوگئیں یا ایک رجعی طلاق ہوگی؟ ج: آپ نے جس صورت میں اپنی بیوی کو طلاق دی اس صورت میں ایک رجعی طلاق واقع ہوچکی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق ہوا کرتی تھیں ۔ تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں نے ایک ایسے امر میں جلد بازی سے کام لیا ، جس میں ان کے لیے گنجائش تھی تو اگر ہم اسے ان پہ نافذ کریں تو پھر انہوں نے اس کو ان پہ نافذ کردیا۔‘‘ [1]
[1] جلد اول ؍ کتاب الطلاق ؍ ص:۴۷۷