کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 471
دیا گیا۔ ‘‘ ] ۱۳ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۱ھ س: یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ اسلامی حکومت نہیں ہے۔ زبردستی ایک لڑکی کو کچھ لوگ اٹھاکر لے جاتے ہیں ، اغواء کرلیتے ہیں اور کچھ روز زیادتی کے بعد اس کو کسی بازار کے اندر چھوڑ جاتے ہیں ۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلتا ہے ، لڑکی حاملہ ہے ، تو کیا لڑکی کا حمل ضائع کردیا جائے؟ اگر نہیں تو اس بچہ کی کفالت کس کے ذمہ ہے؟ کیا معاشرہ اور اس کے رہنے والے لوگ چاہے وہ اسلامی ذہن رکھتے ہوں اس کو قبول کریں گے (شادی کے لیے)؟ کیا اس کو معاشرہ کے اندر کوئی عزت دے گا؟ کیا اس کی زندگی اس کی دوسری بہنوں کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہوگی؟ کیا اس کے والدین ، بہن ، بھائیوں کو معاشرے کے اندر عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؟ ج: مشکاۃ ؍ کتاب الحدود ، حدیث نمبر: ۳۵۶۲ میں ہے: (( ثم جائتہ امرأۃ من غامد من الأزد ، فقالت: یا رسول ا للّٰه طھرنی۔ فقال: ویحک ارجعی ، فاستغفری ا للّٰه ، وتوبی إلیہ۔ فقالت: ترید أن ترددنی کما رددت ماعز بن مالک؟ إنھا حبلی من الزنا۔ فقال: أنت؟ قالت: نعم۔ قال لھا: حتی تضعی مافی بطنک۔ قال: فکفلھا رجل من الأنصار حتی وضعت ، فأتی النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم ، فقال: قد وضعت الغامدیۃ۔ فقال: إذا لا نرجمھا ، وندع ولدھا صغیرا لیس لہ من یرضعہ۔)) الحدیث۔ کتاب نکال کر یہ صحیح مسلم والی پوری حدیث پڑھ لیں ۔[1] [’’ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاک کیجئے مجھ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ارے چل اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ اور توبہ کر۔ تھوڑی دور لوٹ کر گیا۔ پھر آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاک کیجئے مجھ کو۔ آپ نے ایسا ہی فرمایا۔ جب چوتھی مرتبہ ہوا تو آپؐ نے فرمایا: میں کاہے سے پاک کروں تجھ کو، ماعز رضی اللہ عنہ نے کہا: زنا سے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں سے) پوچھا کیا اس کو جنون ہے؟ معلوم ہوا جنون نہیں ہے ۔ پھر فرمایا: کیا اس نے شراب پی ہے۔ ایک شخص کھڑا ہوا۔ اور اس کا منہ سونگھا تو شراب کی بو نہیں پائی۔ پھر آپ نے فرمایا: (ماعز رضی اللہ عنہ سے) کیا تو نے زنا کیا؟ وہ بولا: ہاں ! آپ نے حکم کیا وہ پتھروں سے مارا گیا۔ اب اس کے باب میں لوگ دو فریق ہوگئے۔ ایک تویہ کہتا ماعز رضی اللہ عنہ تباہ ہوا گناہ نے اس کو گھیر لیا۔ دوسرا یہ کہتا کہ ماعز رضی اللہ عنہ کی توبہ سے بہتر کوئی توبہ نہیں ۔ وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کہنے
[1] مسلم ؍ کتاب الحدود ؍ باب حد الزنا