کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 466
س: کسی لڑکی کا نکاح قبل البلوغ ہوا ہو۔ کیا بعد از بلوغ اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے۔ اس مسئلہ میں آپ سے فتویٰ مطلوب ہے۔ اگر ایسی لڑکی نکاح قائم رکھنا نہیں چاہتی تو کیا اسے کم از کم خلع کا حق ہے؟ (السید نصرۃ اللہ شاہ الراشدی السندھ، نیو سعید آباد سندھ) ج: خیار بلوغ شرعاً ثابت ہے۔ عبداللہ بن عباس…رضی اللہ عنہما.....فرماتے ہیں : (( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم فَذَکَرَتْ لَہٗ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ ، فَخَیَّرَھَا النَّبِيُّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم )) [1] [’’ ایک کنواری لڑکی نبیؐ کے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کردیا ہے اور وہ ناپسند کرنے والی ہے تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دے دیا۔‘‘] اس حدیث کو شیخ البانی .....رحمہ اللہ تعالیٰ .....نے صحیح ابن ماجہ میں درج فرمایا ہے۔ البتہ ایسی لڑکی خود بخود نکاح ختم نہیں کرسکتی۔ قاضی صاحب کے پاس مسئلہ پیش کرے اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔ قاضی صاحب اس کو اختیار دیں گے ، اگر وہ خاوند کے پاس نہیں رہنا چاہتی تو قاضی صاحب نکاح ختم و فسخ کردیں گے۔ فسخ نکاح کی عدت گزار کر آگے نکاح کرسکتی ہے۔ ۲۰ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۴ھ س: اگر کسی لڑکی کی منگنی ایک ایسے گھرانے میں ہوجائے۔ جو کہنے کو تو مسلمان اور اہلحدیث ہوں ۔ لیکن بے پردگی ، ٹی وی وغیرہ سب چلتا ہو اور لڑکی جو کہ دنیا کی نسبت دین کو اور نام کے بجائے کام کو پسند کرتی ہو۔ ایسی صورت میں وہ کیا کرے؟ جبکہ منگنی سے پہلے وہ لڑکی خود بھی ان لوگوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی؟ ج: والدین کی طرف رجوع کرے ، اگر وہ تسلیم کرلیں توفبہا ورنہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر حسب استطاعت پر عمل پیرا ہوجائے۔ ۲۲ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۳ھ س: بچوں میں وقفے کی حد تک کوئی طریقہ استعمال کرنا ، مثلاً ٹیکے ، گولیاں یا غبارہ تو کیا یہ طریقے جائز ہوں گے؟ (نوٹ) .....بچوں کی اچھی پرورش اور بیوی کی صحت کے لیے۔ ج: یہ طریقے ناجائز ہیں ، اگر وقفے کے لیے کوئی مجبوری ہے تو عزل والا طریقہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ۷ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۲ھ س: کیا بچوں کی پیدائش میں وقفہ اس نیت سے کروانا کہ ان کو سنبھالنا ، پرورش ، تربیت اور جسمانی کمزوری
[1] رواہ أحمد ، وأبو داؤد وابن ماجہ ، رواہ ابو داؤد للألبانی الجزء الثانی حدیث نمبر:۱۸۴۵