کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 465
ج: برات، سالگرہ اور برسی مجھے تو کسی آیت کریمہ یا کسی صحیح حدیث میں نہیں ملیں ۔ بعض علماء کے ان کاموں کو اپنانے یا ان میں شرکت فرمانے سے ان چیزوں کا جواز نہیں نکلتا۔ ۲۲ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۱ھ س: ہمارے علاقے میں شادی کی رسم ہے کہ بچی کو ڈولی میں برات والے اٹھاکر گھر لے جاتے ہیں ، جو کہ ہندوانہ رسم ہے کیا یہ جائز ہوسکتی ہے؟ (ابوجابر، ایبٹ آباد) ج: کتاب و سنت سے ثابت نہیں ۔ جناب خود ہی اس کو ہندوانہ رسم قرار دے رہے ہیں ۔ ۱۰ ؍ ۳ ؍ ۱۴۲۲ھ س: کیا نکاح کے موقع پر بیٹی کو جہیز دینا جائز ہے ، اگر نہیں تو کیوں ؟ نیز نیو ندرہ اور سلامی دینا بھی جائز ہے کہ نہیں ؟ (عبدالغفور ، شاہدرہ) ج: نہیں ۔ کیونکہ کتاب و سنت میں اس کا ثبوت نہیں ، پھر آپ جانتے ہیں کہ بیوی کی رہائش، اس کا لباس اور نان و نفقہ وغیرہ کا ذمہ دار خاوند ہے نہ کہ بیوی کے والدین یا خویش و اقارب۔ مروج نیوندرہ اور سلامی سود کی ایک صورت ہے۔ ۱۴ ؍ ۸ ؍ ۱۴۲۱ھ س: ایک والد حقیقی نے اپنی بالغ اور جوان لڑکی کا نکاح اس کی اجازت ، رضا اور خوشی حاصل کیے بغیر اپنے کسی رشتہ دار لڑکے سے کردیا ہے۔ لڑکی مذکورہ نکاح سے پہلے بھی برملا پکار کر کہتی رہی ہے کہ میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنے پر ہرگز راضی اور خوش نہیں ہوں ۔ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی اور لڑکی مذکورہ اب بھی علی الاعلان اس نکاح پر ناراضگی ، خفگی اور عدم رضا کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے سامنے رونا شروع کردیتی ہے اور واضح الفاظ میں اس نکاح کو ناپسند اور ردّ کرتی ہے۔ اس نکاح کا قرآن و حدیث کے اعتبار سے کیا حکم ہے؟ ج: صورتِ مسؤلہ اگر درست ہے تو معاملہ مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں طے کرلیا جائے۔ (( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم فَذَکَرَتْ لَہٗ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ ، فَخَیَّرَھَا النَّبِيُّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم )) [1] ’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ پسند نہیں کرتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔‘‘ ۲۰ ؍ ۸ ؍ ۱۴۲۲ھ
[1] صحیح سنن ابن ماجہ:۱۵۲۰ ۔ ۱۸۷۵