کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 464
حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہوجاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں ! یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور اس کا وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا وہ شخص اس سے انکار کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں ۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں ، جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوجاتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس بچے کو اسی کے ساتھ منسوب کردیتے اور وہ بچہ اس کا بیٹا کہا جاتا۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ پھر جب حضرت محمدؐ حق کے ساتھ رسول ہوکر تشریف لائے تو آپؐ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا۔ صرف اس نکاح کو باقی رکھا۔ جس کا آج کل رواج ہے۔ ‘‘[1] ’’ خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کردیا تھا۔ وہ ثیبہ تھیں ، انہیں یہ نکاح منظور نہیں تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کر ڈالا۔ ‘‘ ] [2] ۲ ؍ ۲ ؍ ۱۴۲۴ھ س: بارات یعنی دولہا کے ساتھ پچاس، سو یا دوسو آدمی دلہن والوں کے گھر جاتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی رو سے اس کی وضاحت کیجیے؟ شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کو جو جہیز دیا جاتا ہے اس کی بھی وضاحت فرمائیے؟ (محمد یونس شاکر، نوشہرہ ورکاں ) ج: بارات کا ثبوت کتاب و سنت میں کہیں نہیں ملتا، بلکہ بارات کے لیے عربی لغت میں کوئی لفظ موضوع نظر سے نہیں گزرا۔ مروجہ جہیز کا بھی کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ۲۴ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۱ھ س: برات ، سالگرہ اور برسی کا کیا حکم ہے؟ بعض علماء بھی شریک ہوتے ہیں ۔ (محمد عمر بن محمد صدیق)
[1] بخاری ؍ کتاب النکاح ؍ باب من قال: لا نکاح الاَّ بولی [2] بخاری ؍ کتاب النکاح ؍ باب اذا زوّج ابنتہ وھی کارھہ فنکاحہ مردود