کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 460
یُصِیْبُھَا أَوْ إِلَی امْرَأَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ إِلَی مَا ھَاجَرَ إِلَیْہِ)) [1] [’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملتا ہے، جس کی وہ نیت کرے اس لیے جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو ، اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل ہوگی ، لیکن جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کی نیت سے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے ارادہ سے ہو ، اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔‘‘] کا مصداق ہے۔ س: ایک لڑکی کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جبکہ والدین خوش نہیں ہیں وہ کسی اور دیندار لڑکے سے اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں لڑکی زبردستی اپنے ماں باپ کو منوالیتی ہے ، ایسی صورت میں یہ نکاح درست ہے؟ ج: جو امور نکاح کے لیے ضروری ہیں اور ان کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ان میں مندرجہ ذیل دو امر بھی شامل ہیں : 1۔ لڑکی کے ولی کی بقائمیٔ ہوش و حواس بلاجبر و اکراہ اجازت و رضا چنانچہ اس کے اثبات کے لیے صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور دیگر کتب میں احادیث موجود ہیں ۔ 2۔لڑکی کی بقائمیٔ ہوش و حواس بلاجبر و اکراہ اجازت و رضا، چنانچہ اس کے اثبات میں بھی صحاح ستہ اور دیگر کتب میں احادیث بکثرت پائی جاتی ہیں ۔ ۲۳ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۲ھ س: ہمارے ایک جاننے والے نے جس لڑکی سے شادی کی وہ مسلک کے اعتبار سے شیعہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کی شادی میں لڑکی کے والدین قطعاً راضی نہ تھے، کیونکہ ان کے خیال میں ایک سیّدزادی کا نکاح باہر کرنا باعث نفرت سمجھا جاتا ہے۔ المختصر چونکہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، لہٰذا لڑکی نے گھر سے فرار اختیار کی اور کسی دار الامان میں پناہ گزیں ہوگئی۔ لڑکا لڑکی کو بیاہ کر اپنے ساتھ لے آیا۔ لڑکی کے والدین نے لڑکی کی بازیابی کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کررکھا ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں جبکہ ان کے دوبچے ہیں تو لڑکے کو احساس ہوا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر تو نکاح ہی نہیں ہوتا۔ لیکن دریافت طلب بات یہ ہے کہ اب اس مسئلہ کا شرعی حل کیا ہے؟ آیا انہیں تجدید نکاح کرنا پڑے گا یا وہ دونوں سزا کے حقدار ٹھہرتے ہیں ؟ ج: آپ نے جس نکاح کا تذکرہ فرمایا وہ کوئی نکاح نہیں ، اس کی وجہ یہ نہیں کہ سیّد زادی کا نکاح باہر درست
[1] بخاری ؍ کتاب النکاح ؍ باب من ھاجر او عمل خیرلتزویج امراۃٍ فلہ مَا نَوی