کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 450
ایک عربی مضمون کا خلاصہ یوم النحر (۱۰ ذوالحجہ) کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد چاشت کا وقت ہے اور ایام تشریق (۱۱ ۔ ۱۲ ۔ ۱۳ ذوالحجہ) میں کنکریاں مارنے کا وقت زوال آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے روز جمرہ عقبہ کو دن چڑھے کنکریاں ماریں ، جبکہ اس کے بعد ایام تشریق میں دن ڈھلے کنکریاں ماریں ۔ [مسلم ؍ کتاب الحج ؍ باب استحباب الرمی] یو النحر ۱۰ ذوالحجہ کو سورج طلوع ہونے سے پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا منع ہے، خواہ بوڑھے ہوں ، خواہ بچے، خواتین ہوں یا مریض۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبدالمطلب کے لڑکوں کو رات کے وقت مزدلفہ سے روانہ کردیا اور ہم گدھوں پر سوار تھے اور آپؐ ہماری رانوں پر مارتے تھپتھپاتے اور فرماتے: ’’ میرے پیارے بیٹو! سورج طلوع ہونے سے پہلے جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا۔‘‘ [1] ’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے اہل خانہ کے کمزور لوگوں کے ساتھ روانہ کیا اور فرمایا: کنکریوں کو سورج طلوع ہونے سے پہلے نہ پھینکو۔ ‘‘[2] ابن جریج نے بیان کیا ہے کہ ان سے اسماء کے غلام عبداللہ نے بیان کیا کہ ان سے اسماء بنت ابوبکرؓ نے کہ وہ رات ہی کو مزدلفہ پہنچ گئیں اور کھڑی ہوکر نماز پڑھنے لگیں کچھ دیر تک نماز پڑھنے کے بعد پوچھا بیٹے کیا چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا کہ نہیں ! اس لیے وہ دوبارہ نماز پڑھنے لگیں ۔ کچھ دیر بعد پھر پوچھا: کیا چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا: ہاں ۔ انہوں نے کہا کہ اب آگے چلو (منیٰ کو) چنانچہ ہم ان کے ساتھ آگے چلے وہ (منیٰ میں ) رمی جمرہ کرنے کے بعد پھر واپس آگئیں اور صبح کی نماز اپنے خیمے میں پڑھی۔ میں نے کہا: جناب یہ کیا بات ہوئی کہ ہم نے اندھیرے ہی میں نمازِ صبح پڑھ لی۔ انہوں نے کہا: بیٹے! رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔ اس واقعہ میں جو سورج طلوع ہونے سے پہلے کنکریاں مارنے کاذکر ہے وہ پہلی احادیث کے ساتھ معارض نہیں ۔ کیونکہ اس واقعہ میں کنکریاں رات کو مارنے کی اجازت کی وضاحت نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے بیماروں ، بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو جو اجازت رات کو مزدلفہ سے آنے کی ملی ہے، اسی اجازت سے کنکریاں
[1] ابو داؤد ؍ کتاب المناسک ؍ باب التعجیل من جمع ، نسائی ، ابن ماجہ [2] بخاری ؍ کتاب الحج ؍ باب من قدم ضعفۃ اہلہ بلیل ، مسلم کتاب الحج ؍ باب استحباب تقدیم دفع الضعفۃ من النسآء ، ترمذی ؍ ابواب الحج ؍ باب ماجاء فی الضعفۃ من جمع بلیل