کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 416
فی سبیل اللہ اسی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ [تفسیر تیسیر القرآن] فی سبیل اللہ سے مراد مجاہدین وغازی ہیں ۔ [تفسیر ابن کثیر] اللہ کے راستے بہت سارے ہیں ، لیکن میں اس کے بارے نہیں جانتا کہ کسی نے اس بات میں اختلاف کیا ہو کہ یہاں سبیل اللہ سے مراد لڑائی یا غزوہ ہے۔ [احکام القرآن :۲؍۹۶۹] ۱۶ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۳ھ س: عشر کن کو دینا افضل ہے ، زکوٰۃ بھی صدقہ بھی عام غریبوں کو یا مجاہدین کو؟ (محمد شکیل ، فورٹ عباس) ج: عشر صدقات میں شامل ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ ا للّٰه وَابْنِ السَّبِیْلِ [ ’’ صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ۔‘‘ صدقہ و زکوٰۃ کے مصرف ہیں آٹھ .....سورۂ توبہ کی آیت نمبرہے ساٹھ ان آٹھ مصارف میں فی سبیل اللہ بھی ایک مصرف ہے ، جس کی صحیح ترین تفسیر جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ابی حبیبہ طائی سے ہے ، انہوں نے کہا کہ میرے بھائی نے میری طرف کچھ مال کی وصیت کی تو میں ابودرداءؓ کو ملا ، اور سوال کیا کہ میرے بھائی نے کچھ مال کی وصیت کی ہے میں اس مال کو کہاں خرچ کروں ۔ فقراء میں ، مساکین میں ، مجاہدین میں تو ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ لیکن میں تو مجاہدین کے برابر کسی کو نہیں سمجھتا۔‘‘ ] [1] ۱۲ ؍ ۱۰ ؍ ۱۴۲۱ھ س: کیا صدقۃ الفطر میں قیمت ادا کرنا جائز ہے۔ مولانا عبدالرحمن ذہبی صاحب نے لکھا ہے کہ قیمت دینے سے صدقۃ الفطر ادا نہیں ہوتا؟ (قاری محمد عبداللہ ظہیر ، لاہور) ج: مولانا صاحب سے ہی دریافت فرمالیں کہ مسکین کو صدقۃ الفطر جنس کی صورت میں ملا تو وہ جنس صدقہ کو فروخت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر جواب نفی میں دیں تو دلیل طلب فرمالیں اور اگر جواب اثبات میں دیں تو پھر صدقہ دینے والا اس کا وکیل بن کر اسے قیمت کیوں نہیں دے سکتا؟ جبکہ مسکین نے فطرانہ فروخت کرکے قیمت ہی وصول کرنی ہے وہ بھی عام طور پر صدقہ دینے والے کی ادا کردہ قیمت کی بنسبت کم بلکہ کمتر بلکہ کمترین۔ واللہ اعلم۔ ۱۷ ؍ ۱۰ ؍ ۱۴۲۱ھ ٭٭٭
[1] ترمذی ؍ الجلد الثانی ، أبواب الولاء والھبۃ ؍ باب ماجاء فی الرجل یتصدق أو یعتق عند الموت