کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 415
س: کسی مالدار نے زکوٰۃ دی اور اس زکوٰۃ سے یا کسی اور کی زکوٰۃ کے مال سے اس کو ( جو زکوٰۃ دے رہا ہے) کوئی چیز خرید کر ( مثلاً دینی کتب وغیرہ) ہدیہ دینا جائز ہے کہ نہیں ؟ (عبداللہ بن ناصر، پتوکی) ج: زکوٰۃ کھانے یا اسے واپس لینے کا حیلہ نہ ہو تو درست ہے۔ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے، سوائے پانچ قسم کے مالداروں کے۔ (۱) جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو۔ (۲) جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو خرید لے۔ (۳) مقروض۔ (۴) اللہ کے راستے کا غازی مجاہد۔ (۵)جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے۔‘‘ ] [1] ۲۴ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۰ھ س: کیا زکوٰۃ کی رقم کو جمع کرکے کسی رفاہی کام یعنی سڑک ، گلی ، مدرسہ وغیرہ پر خرچ کرنا چاہیے یا صرف غرباء کو دینی چاہیے؟ (کلیم انور، ہزارہ) ج: صدقہ و زکوٰۃ کے مصرف ہیں آٹھ .....سورۂ توبہ کی آیت نمبر ہے ساٹھ۔ ﴿ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ﴾ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ ا للّٰه وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ ا للّٰه وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ [التوبہ:۶۰] ’’ صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے فرض ہے، اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘ ]فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ [فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد (چاہے وہ مال دار ہی ہو) پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائزہے۔ [تفسیر احسن البیان]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( أَوْ غَازٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ)) [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے ، سوائے پانچ قسم کے مالداروں کے ۔ ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو۔ دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے ۔ تیسرا قرض دار۔ چوتھا اللہ کے راستے کا غازی مجاہد۔ پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو، دے۔‘‘ معلوم ہو آپ کا ذکر کردہ مصرف ’’ رفاہِ عامہ ‘‘ ان مندرجہ بالا آٹھ مصارف سے خارج ہے۔ واللہ اعلم ۔ اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اس کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے اور قتال
[1] ابو داؤد ؍ کتاب الزکاۃ ؍ باب من یجوزلہ اخذ الصدقۃ وھو غنی [2] ابن ماجہ ؍ کتاب الزکاۃ ؍ باب من تحل لہ الصدقۃ