کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 414
4۔ ہاں ان مذکورہ بالا آٹھ مصارف میں شامل لوگوں اور بچوں کے لیے صدقات سے لائبریری بھی قائم کی جاسکتی ہے، دوسروں کے لیے نہیں ۔ واللہ اعلم۔ صدقہ و زکوٰۃ کے مصارف ہیں آٹھ۔ سورۂ توبہ کی آیت نمبر ہے ساٹھ ۔ ۲۶ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۲ھ س: کیا اپنے بھائی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ، اسی طرح بیٹے، بیٹی ،بہو وغیرہ کو بھی؟ (ابوطلحہ محمد اصغر) ج: انسان اپنے رشتہ داروں سے ان رشتہ داروں کے علاوہ جن کا نان و نفقہ اس کے ذمہ ہے، باقی تمام رشتہ داروں کو بھی صدقہ و زکوٰۃ دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ مستحقین صدقہ و زکوٰۃ کی فہرست میں شامل ہوتے ہوں ۔ یاد رہے مستحقین صدقہ و زکوٰۃ صرف آٹھ ہیں ۔ صدقہ و زکوٰۃ کے مصرف ہیں آٹھ …سورۂ توبہ کی آیت نمبر ہے ساٹھ [سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مسکین کو زکوٰۃ دینا اکہراثواب ہے اور رشتہ دار کو زکوٰۃ دینا دوہرا ثواب ہے۔ ایک زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔‘‘ [1] عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے فرمایا ’’صدقہ کرو ، اگرچہ اپنے زیوروں سے ہو‘‘ اور زینب رضی اللہ عنہا عبداللہ رضی اللہ عنہ پر اور کچھ یتیموں پر جو ان کی پرورش میں تھے، خرچ کیا کرتی تھیں ۔ انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اگر میں اپنا صدقہ اپنے خاوند اور چند یتیم بچوں کو جو میری پرورش میں ہیں دے دوں تو کیا درست ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا تم خود ہی جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ آخر زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ۔ وہاں ایک انصاری عورت کو دروازے پر پایا ، وہ بھی میرے جیسا مسئلہ پوچھنے آئی تھی، اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ ہمارے سامنے سے نکلے ، ہم نے ان سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اگر میں اپنے خاوند اور چند یتیموں کو جو میری پرورش میں ہیں ، زکوٰۃ دوں تو کیا درست ہے؟ ہم نے کہا ہمارا نام نہ لینا۔ بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ دو عورتیں یہ مسئلہ پوچھتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون سی عورتیں ؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: زینب نامی۔ آپؐ نے فرمایا: کون سی زینب؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ نے فرمایا:بے شک درست ہے اور ان کو دوگنا ثواب ملے گا۔ ایک تو قرابت داری کا اجر اور دوسرا زکوٰۃ کا اجر۔‘‘[2] ۱۷ ؍ ۵ ؍ ۱۴۲۱ھ
[1] جامع ترمذی ؍ ابواب الزکاۃ ؍ باب الصدقۃ علی ذی القرابۃ ، صحیح ابن ماجہ:۱۸۴۴ ، صحیح سنن نسائی للألبانی الجزء الثانی رقم الحدیث:۲۴۲۰ [2] صحیح بخاری ؍ کتاب الزکاۃ ؍ باب الزکاۃ علی الزوج والایتام فی الحجر