کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 403
آپ لکھتے ہیں : ’’ حاکم نے کہا کہ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے۔‘‘ اس میں بھی آپ لوگوں نے تلبیس ہی سے کام لیا ہے، کیونکہ تہذیب التہذیب میں الفاظ اس طرح ہیں : (( قال الحاکم: المنہال بن عمرو غمزہ یحیی القطان)) جس کا ترجمہ آپ نے فرمایا:’’ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے۔‘‘ جبکہ اس عبارت کا ترجمہ آپ والا نہیں بنتا۔ کیونکہ لفظ: (( ضعفہ یحیی القطان وغیرہ ممایدل علی التضعیف نصا)) نہیں ، بلکہ لفظ ہیں : (( غمزہ یحیی القطان)) اور غمز تضعیف میں نص نہیں ۔ تضعیف کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ جیسے آپ پہلے ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ یحییٰ بن معین منہال بن عمرو کو بذاتِ خود ثقہ بھی کہہ رہے ہیں اور اس کی شان سے کچھ گرا بھی رہے ہیں ۔ آپ لکھتے ہیں : ’’ ابومحمد بن حزم بھی اس کو ضعیف کہتے تھے۔‘‘ الخ ، تو آپ کو علم ہے اہل علم اس بات میں ابن حزم کا رد فرما چکے ہیں ۔ چنانچہ تہذیب التہذیب میں ہے: (( وقال أبو الحسن بن القطان: کان أبو محمد بن حزم یضعف المنہال ، ورد من روایتہ حدیث البراء ، ولیس علی المنہال حرف فیما حکی ابن ابی حازم فذکر حکایتہ المتقدمۃ۔ قال: فإن ھذا لیس بجرح إلا أن تجاوز إلی حد تحریم ، ولم یصح ذلک عنہ ، وجرحہ بھذا تعسف ظاہر ، وقد وثقہ ابن معین والعجلی)) اس مقام پر آپ لوگوں نے لا تقربوا الصلاۃ پڑھنے اور’’ وانتم سکاری‘‘ نہ پڑھنے والا کام کیا ہے، کیونکہ تہذیب التہذیب سے ابو الحسن بن القطان کا کلام: (( کان أبو محمد بن حزم یضعف المنہال ورد من روایتہ حدیث البراء)) تو نقل فرمادیا، مگر اس کے بعد اس کے رد میں ابو الحسن بن القطان کا کلام : (( ولیس علی المنہال الخ)) جیسے ہم پہلے نقل کر آئے۔ آپ لوگوں نے نہ کتابوں میں نقل کیا اور نہ ہی ویسے لوگوں کو بتایا۔ اس کو آپ دین کی خدمت اور نشرواشاعت سمجھتے ہیں تو سمجھیں ۔ نفس الأمر اور واقع میں یہ دین کی کوئی خدمت نہیں نہ ہی یہ دین کی نشرو اشاعت ہے۔ آپ نے ڈاکٹر عثمانی کا تذکرہ فرمایاہے تو ان کی تسلی کی خاطر عرض ہے کہ زاذان تو ثقہ راوی اور رجال مسلم میں شامل ہیں اور منہال بن عمرو بھی ثقہ اور رجال شیخین میں شامل ہیں اور ان دونوں پہ جو جرح آپ نے نقل کی اس کا حال آپ کو معلوم ہوگیا ہے کہ وہ نفس الأمر اور واقع میں کوئی جرح نہیں ، جو ان میں ضعف کا سبب بن سکے۔ اس کے برعکس کئی راوی ہیں ، جن پہ اسماء رجال کی کتب میں جرح زاذان اور منہال والی بے وزن جرح سے کہیں شدید اور واقعی جرح نقل کی گئی ہے۔ اس کے باوصف ڈاکٹر عثمانی ان راویوں کو ثقہ بلکہ اوثق گردانتے ہیں اور کتابوں میں