کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 396
(۳).....نمبر ۲ میں اس کا جواب گزر چکا ہے۔ دونوں باتیں درست ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہیں ان میں کوئی تعارض نہیں ۔ تطبیق کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کتاب و سنت سے ثابت عقیدہ ، عمل اور قول کو اپنانے والوں کو کافر کہنے والے غور فرمائیں ان کے اس فتویٰ کی زد کہاں پڑتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔ (۴) .....مسند امام احمد جلد سوم ص۱۶۵ پر اس کی سند اس طرح ہے: ((حدثنا عبداللہ حدثنی أبی ثنا عبدالرزاق ثنا سفیان عمن سمع أنس بن مالک یقول: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘)) معلوم ہے کہ سند میں ’’من سمع انسا ‘‘ مجہول ہے۔ (۵) .....آپ کے محولہ مقام پر لکھاہے: ((وکان بعض الأنصار من أقارب عبداللّٰه بن رواحۃ یقول: إنی أعوذبک من عمل أخزی بہ عند عبداللّٰه بن رواحۃ۔ کان یقول ذلک بعد أن استشھد عبداللّٰه )) اولاً تو یہ بے سند ہے ابن کثیر میں اس کی کوئی سند نہیں ۔ ثانیاً یہ بعض الأنصار من أقارب عبداللّٰه کا عمل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت نہیں اور معلوم ہے موقوفات اور مقطوعات دین میں حجت و دلیل نہیں ۔ ۶؍۴؍۱۴۲۴ھ س: روح کے بدن میں واپس لوٹائے جانے کی غلط روایت: ’’ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت کہ ہر مرنے والے کی روح سوال و جواب سے پہلے اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔ ‘‘[1]یہ روایت بھی ضعیف ہے اور ناقابل اعتبار ہے۔ سند یوں ہے: (( عن احمد بن حنبل عن ابی معاویۃ عن الاعمش عن منھال بن عمرو عن زاذان عن براء بن عازب رضی اللّٰه عنہ)) اس روایت میں بھی شیعہ زاذان ہے، جس کو سلمہ بن کہیل ابو البختری سے بھی کمتر سمجھتے ہیں ، اور دوسرا اس کا شاگرد منہال بن عمرو ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد احمد بن حنبل کہتے تھے کہ ابو بشر مجھ کو منہال سے زیادہ بھلا لگتا ہے۔ اور اس ابو بشر جعفر بن ایاس کو شعبہ نے ضعیف کہاہے۔ ابن معین منہال کی شان گراتے تھے، حاکم نے کہا کہ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے اور ابو محمد بن حزم بھی اس کو ضعیف کہتے تھے، اور اس کی اس براء بن عازب رضی اللہ عنہ والی روایت کو رد کرتے تھے۔ [2] معلوم ہوا کہ مرنے والے کے دنیاوی جسم میں روح کا واپس لوٹایا جانا غلط ہے؟.....[3]
[1] رواہ احمد ، مشکوٰۃ، ص:۱۴۲ [2] تہذیب التہذیب ، جلد ۱۰ ، ص:۳۱۹ ، ۳۲۰ ، میزان الاعتدال ، جلد:۳ ، ص:۲۰۴ [3] بحوالہ یہ مزار صفحہ:۲۱ ، ڈاکٹر عثمانی