کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 395
میں ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے مثلاً شہداء جنت میں اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ۔ اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ابراہیم کو دو دھ پلانے والی جنت میں موجود ہے۔‘‘ عمرو بن لؤی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم میں اپنی آنتیں کھینچتے دیکھا تھا۔(صحیح بخاری) براہِ مہربانی ان احادیث میں تطبیق دے دیں ۔ فرقہ عثمانیہ کہتا ہے کہ ایک طرف تم کہتے ہو کہ قبر میں روح لوٹا دی جاتی ہے ، دوسری طرف جہنم اور جنت میں بھی روح کی موجودگی ثابت ہو تی ہے اور مستزاد یہ کہ تم کہتے ہو کہ علیین یا سجین میں روحیں رہتی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اہلحدیث کی باتوں میں تضاد ہے لہٰذا شہداء کے جنت میں ہونے والی احادیث اور عمرو بن لؤی وغیرہ کے جہنم میں عذاب پانے والی احادیث کے پیش نظر صرف یہی عقیدہ رکھنا واجب ہے کہ مرتے ہی روح جنت یا دوزخ میں بھیج دی جاتی ہے ۔ قبر میں روح لوٹائے جانے کا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے۔ براہ مہربانی وضاحت فرما دیں کہ منکر نکیر کے حساب کتاب لینے کے بعد روح میت کے بدن سے نکال دی جاتی ہے یا نہیں اور پھر اس کا مستقل مقام کون سا قرار پاتا ہے ۔ کیا سجین جہنم کا ایک مقام ہے؟ کیا علیین جنت ہی کا ایک مقام ہے؟ (۴) .....کیا عرض اعمال کا عقیدہ درست ہے؟ مسند احمد جلد سوم ۱۶۵ میں حدیث ہے : ’’بے شک تمہارے اعمال تمہارے فوت شد گان ، اعزہ و اقارب پر پیش ہوتے ہیں ۔ اگر وہ اعمال اچھے ہوں تو یہ فوت شد گان خوش ہوتے ہیں اور اگر ایسے نہ ہوں تو دعا کرتے ہیں .....‘‘ (۵).....عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ صحابی کی شہادت کے بعد ان کے بعض انصاری عزیز و اقارب دعا کرتے تھے : ’’ اے اللہ ! میں ایسے عمل سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو مجھے عبداللہ بن رواحہ کے پاس شرمندہ کرے۔(تفسیر ابن کثیر جلد سوم ، ص:۴۳۹)‘‘ ج: صحیح ہے۔ (۲) .....مؤمن کی روح بدن میں بھی ہوتی ہے اور جنت میں بھی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے ۔ باقی قبر و برزخ کی زندگی کو دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا درست نہیں جیسا کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی زندگی کو دنیاوی زندگی بعد از ولادت پر قیاس کرنا درست نہیں ۔