کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 392
ہے۔ دیکھئے شکم مادر میں زندگی اور ولادت کے بعد والی زندگی میں فرق ہے۔ یہ صرف سمجھانے کی خاطر کہہ رہا ہوں ، ایک زندگی کو دوسری پر قیاس نہیں کررہا۔ تو قبر و برزخ والی نیز آخر جنت و دوزخ والی زندگی کی حقیقت اور کیفیت کو ہم کما حقہ نہیں سمجھ سکتے، تاوقتیکہ وہاں پہنچ نہ جائیں ، اس لیے ہمیں کتاب و سنت کی اخبار پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ باقی حقیقت واقعیہ کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ضروری ہے۔ اوپر بیان شدہ چار زندگیاں دو ہی زندگیا ں ہیں ۔ زندگی قبل الموت اور زندگی بعد الموت۔ قبل الموت زندگی کے دو حصے ہیں ۔ اسی طرح بعد الموت زندگی کے بھی دو حصے ہیں ۔تو اس تفصیل کا اعتبار کیا جائے تو پھر چار کا لفظ بھی بول سکتے ہیں ۔ لہٰذا یہ چار والی بات: ﴿ قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ط﴾[’’ وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دوبار زندہ کیا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے۔‘‘] [المؤمن:۱۱] کے منافی نہیں ہے۔ ۲۴ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۱ھ س: کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد عذاب و راحت روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے، جبکہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿اَمْوَاتٌ غَیْرُ أَحْیَائٍ﴾’’ مردے ہیں جان کی رمق تک نہیں ۔ ‘‘ [النحل :۲۱]بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے: (( عَجْبُ الذَّنَبِ)) کے علاوہ مٹی جسم انسانی کی ہر چیز کو برباد کردیتی ہے۔[ بخاری ؍ کتاب التفسیر ؍ باب قولہ:﴿ وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمنْ فِی الْأَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَآئَ ا للّٰه ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ﴾[الزمر:۶۸]اب بتایا جائے کہ قرآن و حدیث کی اس کھلی شہادت کے بعد قیامت تک اس قبر دنیا کے مردہ پرعذاب و راحت کا دور کیسے گزرے گا۔ کتنوں کو جلاکر راکھ کردیا جاتا ہے، کسی کو درندہ ہڑپ کرجاتا ہے اور کوئی مچھلیوں کا نوالہ بن جاتا ہے، آخر ان مرنے والوں کو تو قبر میں دفن ہی نہیں کیا گیا، ان کو کیسے اٹھاکر بٹھایا جائے گا، کیسے سوال و جواب ہوگا اور کس طرح ان پر عذاب و راحت کا دور قیامت تک گزرے گا، جبکہ ان کا جسم ہی سلامت نہیں رہا وہ تو ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس کے ذرات مٹی میں مل گئے؟ جبکہ دوسری طرف عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ پر گزرے اس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ لوگ اس (یہودیہ) پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔ (بخاری) اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ یہودیہ عورت ابھی زمینی قبر میں دفن بھی نہیں کی گئی تھی۔