کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 388
تھی، اس نے حج نہ کیا یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تو اس کی طرف سے حج کر۔ بتاؤ کیا تیری ماں پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی؟ اللہ کا حق ادا کرو۔ اللہ وفا کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے حج اگر کیا جائے، تو اسے نفع ہوتاہے۔ مذکورہ بالا اعمال کے علاوہ قل ، تیجے، ساتویں ، چالیسویں ، قرآن خوانی وغیرہ ایسے امور ہیں ، جن کا ذکر کسی بھی حدیث صحیح میں موجود نہیں ، بلکہ یہ صرف اور صرف رسوم ہیں ۔ شرع سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ امام العز بن عبدالسلام رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا: (( وَمَنْ فَعَلَ طَاعَۃً لِلّٰہِ تَعَالٰی تُمَّ أَھْدٰی ثَوَابَھَا اِلٰی حَیٍّ اَوْ مَیِّتٍ لَمْ یَنْتَقِلْ ثَوَابُھَا إِلَیْہِ إذْ ﴿ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعٰی﴾ فَاِنْ شَرَعَ فِی الطَّاعَۃِ نَاوِیًا اَنْ یَّقَعَ عَنِ الْمَیِّتِ لَمْ یَقَعْ عَنْہُ إِلاَّ فِیْمَا اسْتَثْنَاہُ الشَّرْعُ کَالصَّدَقَۃِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ)) [1] ’’ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کوئی کام کیا، پھر اس کا ثواب کسی زندہ یا مردہ کو بخشا تو اللہ کی اطاعت کا ثواب اسے نہیں پہنچے گا، کیونکہ قرآن میں ہے: (انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی) اگر کسی اطاعت کی ابتداء اس نیت سے کی کہ اس کا ثواب فلاں میت کو مل جائے تو یہ میت کی طرف سے واقع نہیں ہوگی۔ ہاں وہ چیزیں میت کی طرف سے واقع ہوں گی، جنہیں شریعت نے مستثنیٰ قرار دیا ہے، جیسے صدقہ ، روزہ اور حج۔‘‘ مذکورہ بالا احادیث ِصحیحہ اور ائمہ محدثین کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ میت کو صرف انہی اعمال کا فائدہ ہوتا ہے جن کا بالتفصیل اوپر ذکر کردیا گیاہے۔ اس کے علاوہ تیجہ، ساتواں ، چالیسواں ، گیارھویں شریف، قرآن خوانی جیسے امور کا کسی صحیح حدیث میں تذکرہ نہیں ہے۔ یہ ہنود کی رسوم ہیں ۔ تفصیل کے لیے مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم کی کتاب ’’ تحفۃ الہند ‘‘ کا مطالعہ کریں ۔ احوالِ برزخ س: سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز (فجر) پڑھنے کے بعد ( عموماً) ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرے۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کردیتا اور آپ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی،بیان
[1] کتاب الجنائز ؍ للشیخ الالبانی حفظہ ا للّٰه تعالیٰ ، ص:۲۰۰