کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 384
3۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( أَنَّ امْرَأَۃً رَکِبَتِ الْبَحْرَ فَنَذَرَتْ اِنْ نَجَّاھَا ا للّٰه اَنْ تَصُوْمَ شَھْرًا فَنَجَّاھَا ا للّٰه فَلَمْ تَصُمْ حَتّٰی مَاتَتْ فَجَائَ تْ اِبْنُتَھَا اَوْ اُخْتُھَا اِلٰی رَسُوْلِ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم فَأَمَرَھَا أَنْ تَصُوْمَ عَنْھَا)) [1] ’’ ایک عورت سمندر میں سوار ہوئی ، تو اس نے نذر مانی، اگر اللہ تعالیٰ اسے نجات دے گا، تو وہ ایک ماہ کے روزے رکھے گی، سو اللہ تعالیٰ نے اسے نجات دی۔ اس نے روزے نہ رکھے، یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئی۔ اس کی بیٹی یا بہن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آپؐ نے اسے حکم دیا کہ وہ اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘ 4۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ رضی اللّٰه عنہ اِسْتَفْتٰی رَسُوْلَ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم فَقَالَ: اِنَّ أُمِّیْ مَاتَتْ وَعَلَیْھَا نَذْرٌ فَقَالَ اقْضِہٖ عَنْھَا)) [2] ’’ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں ، ان کے ذمے نذر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کی طرف سے نذر کو پورا کر۔‘‘ مندرجہ بالا احادیث صراحت سے اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی طرف سے اس کا ولی نذر کا روزہ رکھ سکتا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میت کی جانب سے ولی فرض روزہ بھی رکھ سکتا ہے۔ 4۔ میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی: میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی خواہ ولی کرے یا کوئی اور شخص۔ جب قرض کی ادائیگی ہوجائے گی، تو میت کو اس کا نفع بھی ملتا ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی فوت ہوگیا۔ ہم نے اسے غسل دے کر کفن پہنایا۔ خوشبو لگائی اور جنازہ گاہ میں رکھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز جنازہ کی اطلاع دی۔ آپؐ تشریف لائے فرمایا: ’’شاید تمہارے ساتھی کے ذمے قرض کی ادائیگی ہے؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ہاں دو دینار اس پر قرض ہے۔ آپؐ پیچھے ہٹ گئے اور فرمایا: ’’اپنے ساتھی پر تم جنازہ پڑھو۔‘‘ ابوقتادۃ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں
[1] مسلم ؍ کتاب الصیام ؍ باب قضاء الصیام عن المیت ، بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب من مات وعلیہ صوم [2] بخاری ؍ کتاب الوصایا، مسلم ؍ کتاب النذر عن المیت ، ترمذی ، کتاب النذور والایمان باب ماجاء فی قضاء النذور عن المیت ، نسائی ؍ کتاب الوصایا ، ابن ماجہ؍ کتاب الکفارات