کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 381
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( قَالَ الْعُلَمَائُ: مَعْنَی الْحَدِیْثِ ، أَنَّ عَمَلَ الْمَیِّتِ یَنْقَطِعُ بِمَوْتِہٖ وَیَنْقَطِعُ تَجَدُّدُ الثَّوَابِ لَہٗ إِلاَّ فِیْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائِ الثَّلاَثَۃِ لِکَوْنِہٖ کَانَ سَبَبُھَا فَاِنَّ الْوَلَدَ مِنْ کَسَبِہٖ وَکَذٰلِکَ الْعِلْمُ الَّذِیْ خَلَفَہٗ مِنْ تَعْلِیْمٍ أَوْ تَصْنِیْفٍ وَکَذٰلِکَ الصَّدَقَۃُ الْجَارِیَۃُ وَھِیَ الْوَقْفُ)) [1] ’’ علماء نے کہا ہے حدیث کا معنی یہ ہے کہ میت کا عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا نیا ہونا بھی منقطع ہوجاتاہے، مگر ان تین اشیاء میں اس لیے کہ میت ان امور کی سبب تھی۔ اولاد اس کی کمائی ہے۔ اسی طرح علم جو اس نے پیچھے چھوڑا ، خواہ وہ کسی کو تعلیم دے کر گیا یا کوئی عملی تصنیف چھوڑ گیا۔ اسی طرح صدقہ جاریہ بھی اس کا کسب ہے اور یہ وقف ہے۔‘‘ (( خَیْرُ مَا یُخَلِّفُ الرَّجُلُ مِنْ بَعْدِہٖ ثَلاَثٌ: وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہٗ وَصَدَقَۃٌ تَجْرِیْ یَبْلُغُہٗ اَجْرُھَا اَوْ عِلْمٌ یُعْمَلُ بِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ))[2] ’’ آدمی اپنے بعد سب سے بہترین تین چیزیں چھوڑ کر جاتا ہے۔ (۱) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔ (۲) صدقہ جاریہ، اس کا اجر اسے (مرنے کے بعد) پہنچتا ہے۔ (۳) اور علم جس پر اس کے بعد عمل کیا جاتا ہے۔‘‘ (( عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم اِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِہٖ وَحَسَنَاتِہٖ بَعْدَ مَوْتِہٖ عِلْمًا عَلَّمَہٗ وَنَشَرَہٗ ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَہٗ ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَہٗ ، اَوْ مَسْجِدًا بَنَاہُ اَوْ بَیْتًا لاِبْنِ السَّبِیْلِ بَنَاہُ اَوْ نَھْرًا اَجْرَاہُ ، أَوْ صَدَقَۃً اَخْرَجَھَا مِنْ مَالِہٖ فِیْ صِحَّتِہٖ وَحَیَاتِہٖ یَلْحَقُہٗ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہٖ))[3] ’’ بلاشبہ مومن آدمی کو اس کے عمل اور نیکیوں سے اس کی موت کے بعد جو ملتا ہے اس میں سے (۱) ایسا علم جس کی اس نے تعلیم دی اور اسے نشر کیا۔ (۲) اور نیک اولاد، جو اس نے چھوڑی۔ (۳) اور مصحف (قران) جو اس نے ورثاء کے لیے چھوڑا۔ (۴) یا جو اس نے مسجد تعمیر کی۔ (۵) یا مسافر خانہ تعمیر کیا۔
[1] شرح مسلم للنوی رحمہ ا للّٰہ : ۱۱؍۷۲ [2] ابن ماجہ ؍ کتاب المقدمۃ ؍ باب ثواب معلم الناس الخیر [3] ابن ماجہ المقدمۃ ؍ باب ثواب معلم الناس الخیر