کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 378
[الٰہی ! تیرہ بندہ ، تیری بندی کا بیٹا محتاج ہوگیا ہے تیری رحمت کا، اور تو بے نیاز ہے اسے عذاب دینے سے، اگر تھا یہ نیک تو اضافہ فرما اس کی نیکیوں میں اور اگر تھا یہ گناہ گار تو درگزر فرما اس سے۔‘‘][1] اللہ تعالیٰ کاذکر کثرت سے کرتے رہا کریں ۔ (( ألا بذکر ا للّٰه تطمئِن القلوب)) ۱۳ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۱ھ س: اس عبارت کا ترجمہ درکار ہے: (( وعادت نبودکہ برائی میت در غیر وقت نماز جمع شوند و قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسرگور و نہ غیرآں و این مجموع بدعت است۔)) [شرح سفر السعادت ، ص:۲۷۳] (طاہر ندیم) ج: ’’ عادت نہیں تھی کہ میت کے لیے نماز جنازہ کے علاوہ کسی وقت جمع اکٹھے ہوں ،قرآن خوانی کریں ، اور ختم خوانی کریں نہ ہی قبر کے سر پر اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور مقام پر یہ سب کچھ بدعت ہے۔‘‘ ۷ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۱ھ ایصالِ ثواب س: ایصال ثواب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ مثلاً زید بے نمازی ہے، اس کو ثواب کس طرح ملے گا اور قرآن خوانی کا ثواب پہنچانے کا طریقہ کیا ہے؟ مکمل وضاحت کریں ؟ (حافظ امین اللہ محمدی) ج: قرآن خوانی کا ثواب میت کو پہنچانا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ۔ رہا معاملہ بے نمازی کا تو وہ کافر ہے، اہل ایمان و اسلام کا بھائی نہیں ۔ اس کے اپنے اعمال حبط ہیں ، دوسروں کے عمل اس کو کیونکر پہنچیں گے؟ خواہ وہ عمل ہی کیوں نہ ہوں ، جن کا میت کو پہنچنا کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ ۲۳ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۴ھ [میت کو جن اعمال کا فائدہ مرنے کے بعد ہوتا ہے، ان کی توضیح درج ذیل ہے: 1۔ دُعا: دعا کے بارے میں تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر مرنے والا کافر و مشرک نہ ہو تو اس کے لیے دعا کرنا مسنون ہے۔ اللہ وحدہٗ لاشریک لہ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ جَآؤ مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا
[1] مستدرک حاکم ، ج:۱ ، ص:۳۵۹