کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 366
حسن الحدیث إذا صرح بالتحدیث ، ولکنہ ھنا قد عنعن ، فلا أدری وجہ تحسینھم للحدیث ، فکیف التصحیح؟ (۹۹ ، ۱۰۰))) [ریاض الصالحین کی تحقیق و تخریج میں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اس حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا ہے۔] ۱۷ ؍ ۱۰ ؍ ۱۴۲۲ھ س: نماز جنازہ کی تکبیرات میں رفع الیدین کا کیا ثبوت ہے؟ (قاسم بن سرور) ج: تکبیرات نماز جنازہ میں رفع الیدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں : (( وقد روی مرفوعا اخرجہ الطبرانی فی الأوسط من وجہ آخر عن نافع عن ابن عمر بإسناد ضعیف)) [۳؍۱۹۰] اس پر تعلیق میں شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں : (( وأخرجہ الدار قطنی فی العلل بإسناد جید عن ابن عمر مرفوعا وصوب وقفہ لأنہ لم یرفعہ سوی عمر بن شبۃ۔ والأظہر عدم الالتفات إلی ھذہ العلۃ لأن عمر المذکور ثقۃ ، فیقبل رفعہ لأن ذلک زیادۃ من ثقۃ وھی مقبولۃ علی الراجح عند أئمۃ الحدیث ، ویکون ذلک دلیلا علی شرعیۃ رفع الیدین فی تکبیرات الجنازۃ۔ واللّٰہ أعلم)) ۷ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۳ھ س: آپ کی کتاب ’’ احکام و مسائل ‘‘ پڑھتے ہوئے ’’امام کا کئی بار نماز جنازہ کی امامت کروانا‘‘ پڑھا۔ جبکہ اس حدیث کے متعلق (جس سے استدلال کیا گیا ہے۔) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لا یصحفرمارہے ہیں ۔ حوالہ فتح الباری جزء ثالث۔ (محمد یٰسین ولد محمد رمضان ، ضلع قصور) ج: اس فقیر إلی اللہ الغنی نے احکام و مسائل میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے: (( عَنْ عَبْدِ ا للّٰه بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ رَسُوْلَ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم أَمَرَ یَوْمَ أُحُدٍ بِحَمْزَۃَ ، فَسُجِّیَ بِبُرْدَۃٍ ، ثُمَّ صَلّٰی عَلَیْہِ فَکَبَّرَ تِسْعَ تَکْبِیْرَاتٍ ، ثُمَّ أُتِیَ بِالْقَتْلٰی یَصُفُّوْنَ وَیُصَلِّیْ عَلَیْھِمْ ، وَعَلَیْہِ مَعَھُمْ)) [1] [ ’’عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن حمزہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حکم دیا تو انہیں ایک چادر کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا، پھر آپ نے ان پر جنازہ پڑھا اور ان پر نوتکبیریں کہیں ، پھر دوسرے مقتول لائے گئے، وہ صفوں میں رکھے جاتے تھے اور آپ ان کا جنازہ پڑھتے تھے اور ان کے ساتھ حمزہ کا جنازہ بھی پڑھتے تھے۔ اسے طحاوی نے ’’ معانی الآثار (۱؍۲۹۰) ‘‘میں روایت کیا ہے اور اس کی
[1] احکام الجنائز وبدعھا ، ص:۸۲