کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 345
ترجمہ:…’’ بلاشبہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔ ہم اس کی تعریف کرتے ہیں ، اس سے مدد مانگتے ہیں ، جسے اللہ راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اپنے در سے دھتکار دے اس کے لیے کوئی رہبر نہیں ہوسکتا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘ ’’ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو ، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ اور (پھر) اس جان سے اس کی بیوی کو بنایا اور (پھر) ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں اور انہیں (زمین پر) پھیلایا۔ اللہ سے ڈرتے رہو، جس کے ذریعے (جس کے نام پر) تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں ( کو قطع کرنے) سے ڈرو۔ (بچو) بے شک اللہ تمہاری نگرانی کررہا ہے۔‘‘ ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ایسی بات کہو، جو محکم (سیدھی اور سچی) ہو۔ اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ ’’ حمدو صلوٰۃ کے بعد یقینا تمام باتوں سے بہتر بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور تمام کاموں سے بدترین کام وہ ہیں جو ( اللہ کے دین میں ) اپنی طرف سے نکالے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔‘‘ تنبیہات: صحیح مسلم ، سنن نسائی اور مسند احمد میں ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم کی حدیث میں خطبہ کا آغاز (( اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ)) سے ہے، لہٰذا (( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ)) کی بجائے (( اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ)) کہنا چاہیے۔ یہاں (( نُوْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ)) کے الفاظ صحیح احادیث میں موجود نہیں ہیں ۔ احادیث صحیحہ میں (( نَشْھَدُ)) (جمعہ کا صیغہ) نہیں بلکہ (( أَشْھَدُ)) (واحد کاصیغہ) ہے۔ یہ خطبہ نکاح، جمعہ اور عام وعظ و ارشاد یا درس وتدریس کے موقع پر پڑھا جاتا ہے۔ اسے خطبہ حاجت کہتے ہیں ، اسے پڑھ کر آدمی اپنی حاجت و ضرورت بیان کرے۔ س: جب جمعۃ المبارک کے خطبہ کے اندر اچھی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کررہا ہو تو سبحان اللہ اونچی آواز میں کہنا کیسا ہے؟ (محمد یونس شاکر)