کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 335
’’ترجمہ:.....پس جب عمر نے انہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع فرما دیا تو وہ انہیں بیس رکعات اور تین وتر پڑھاتے تھے۔‘‘ اولاً:.....صاحب رسالہ کے کلام میں مذکور ترجیح یا تطبیق کو شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تراویح قائم کرنے کے بیان میں گیارہ رکعات کے ذکر نہ کرنے کی وجہ بنانا اور بتانا بے دلیل ہے اور جو قول فتاوی ابن تیمیہ سے نقل کیا گیا ہے اس کی دلیل نہیں جیسا کہ اس پر غورو فکر کرنے سے ظاہر ہے جب صورت حال یہ ہے تو پھر اوپر منقول قول صاحب رسالہ کے بیان ’’یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام .....الخ ‘‘ میں مذکور حصر و قصر کی دلیل کیونکر بن سکتا ہے۔ و ثانیاً:.....شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس مقام پر گیارہ رکعات کا ذکر نہ فرمانے سے نفس الامر اور واقع میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دینے ، حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کے گیارہ رکعات پڑھنے اور لوگوں کو عہدِ فاروقی میں گیارہ اور تیرہ رکعات ادا کرنے کی نفی نہیں ہوتی نیز جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم ابی بن کعب و تمیم کا عمل گیارہ رکعات اور لوگوں کا عہدِ فاروقی میں عمل گیارہ اور تیرہ رکعات صحیح آثار سے ثابت ہے تو محض شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول (( فلما جمعھم)) کو لے کر ان صحیح آثار کو رد کرنا کوئی انصاف نہیں ۔ و ثالثاً:.....پھرشیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول (( فلما جمعھم .....الخ)) بظاہرہ حضرت المؤلف کی نقل کردہ تطبیق کی تردید کر رہا ہے ۔ فتدبر و رابعاً:.....چونکہ بات شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی چل نکلی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر ان کی تحقیق بھی سپردِ قلم کر دی جائے شاید اس ہی سے کسی کا بھلا ہو جائے چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ الباری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں لکھتے ہیں : (( قال ابن تیمیۃ الحنبلی: اعلم انہ لم یوقت رسول اللّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم فی التراویح عددا معینا بل لا یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی ثلاث عشرۃ رکعۃ لکن کان یطیل الرکعات ، فلما جمعھم عمر علی ابی کان یصلی بھم عشرین رکعۃ ثم یوتر بثلاث و کان یخفف القراء ۃ بقدر ما زاد من الرکعات لان ذالک اخف علی المامومین من تطویل الرکعۃ الواحدۃ ثم کان طائفۃ من السلف یقومون