کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 334
و ثالثاً : .....حضرت المؤلف کا فرمان :’’اس وقت سے تیرھویں صدی کے اواخر تک پھر کبھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔‘‘ بھی مبنی بر حقیقت اور صادر از انصاف نہیں جیسا کہ امام مالک اور ابو بکر بن العربی کے گیارہ رکعات اور محمد بن اسحاق کے تیرہ رکعات اختیار کرنے سے یہ ظاہر ہے نیز تئیس رکعات ، انتالیس رکعات اور اکتالیس رکعات پڑھنے والے گیارہ رکعات پڑھتے رہے ہیں کیونکہ کم عدد زیادہ عدد کے اندر شامل ہوتاہے چنانچہ قاضی شمس الدین صاحب مد ظلہ نے اپنے بعض رسائل میں بیس پڑھنے والوں کے آٹھ رکعات سنت نبویہ کے عامل ہونے کی تصریح فرمائی ہے تو جب سے گیارہ رکعات پر عمل شروع ہوا اس وقت سے لے کر آج تک ان پر عمل موقوف ہوا نہ رہتی دنیا تک موقوف ہو گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ پھر جب گیارہ اور تیرہ رکعات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی مہر ثبت ہے تو تیرہویں صدی تو تیرھویں صدی ہے خواہ قیامت تک کے لوگ ان پر عمل در آمد نہ کریں ، ان گیارہ اور تیرہ رکعات کی سنیت کو کوئی طاقت ختم کر سکی نہ کر سکے گی اور بیس رکعات کے سنت نبویہ ہونے کی کسی طاقت نے آج تک ثابت کیا نہ کر سکے گی۔ رہا بیس رکعات کے خلفائے راشدین کی سنت ہونے کا دعویٰ تو اس کے دلائل کا حال بھی پچھلے صفحات میں لکھا جا چکا ہے اسے ملاحظہ فرمائیں ۔ ورابعاً:.....اگر حضرت المؤلف کے اندازِ فکر کو اپنا یا جائے تو پھر ہم بھی یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ ’’ بہر حال یہ روایت داؤد بن قیس اکیس رکعات والی ترجیح یا تطبیق کے بغیر قابل استدلال نہیں ہے اور ترجیح یا تطبیق کے بعد گیارہ رکعات یا تیرہ رکعات پڑھنے والوں کے مدعا پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا اس لیے کہ ترجیح کے بعد اکیس کا ثبوت ہی نہیں ہو گا اور تطبیق کے بعد یہ ثابت ہو گا کہ عہدِ فاروقی میں چند روزاس پر عمل ہوا اس کے بعد عہدِ فاروقی ہی میں اکیس پر عمل موقوف ہو گیا اور لوگ بحسب امر فاروقی گیارہ رکعات پڑھتے رہے ، پھر صاحب رسالہ ہی کے اندازِ فکر کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن کی روایت کو بھی حضرت داؤد بن قیس کی روایت پر قیاس فرما لیں ۔ فتامل حضرت المؤلف لکھتے ہیں : ’’یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تراویح قائم کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں گیارہ کا ذکر بھول سے بھی نہیں کیا ، فرماتے ہیں : (( فلما جمعھم عمر علی ابی بن کعب کان یصلی بھم عشرین رکعۃ ویوتر بثلاث‘‘ فتاویٰ ابن تیمیہ ۱ھ، ص:۲۴))