کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 333
میں کہتا ہوں حافظ اور عینی کے کلام میں اس بات کی دلیلیں گزر چکی ہیں کہ ابن اسحاق کا قول ’’کہ یہ سب سے زیادہ پختہ روایت ہے جو میں نے اس مسئلہ میں سنی ‘‘ محمد بن یوسف کی سائب بن یزید سے اس روایت کے بارہ میں ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔ اور ان کا یہ قول یزید بن رومان کی روایت کے بارے میں نہیں ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تئیس رکعت قیام کرتے تھے جیسا کہ شوکانی کو وہم ہوا ہے تو صاحب ضوء النہار کو اپنے اس قول میں وہم ہوا ہے کہ یزید بن رومان کی روایت میں ابو شیبہ ہے اور صاحب نیل کو یہ وہم ہوا ہے کہ انہوں نے ابن اسحاق کا قول (( ھذا اثبت ما سمعت الخ)) یزید بن رومان کی روایت کے حق میں قرار دے دیا ہے حالانکہ اصل معاملہ یہ نہیں ہے ۔ پس غور کر حضرت المؤلف تحریر فرماتے ہیں : ’’بہر حال یہ روایت (گیارہ والی) ترجیح یا تطبیق کے بغیر قابل استدلال نہیں ہے اور ترجیح یا تطبیق کے بعد جمہور امت کے مدعا پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا اس لیے کہ ترجیح کے بعد گیارہ کا ثبوت ہی نہیں ہو گا اور تطبیق کے بعد یہ ثابت ہو گا کہ عہد فاروقی میں چند روز اس پر عمل ہو ااس کے بعد عہد فاروقی ہی میں اس پر عمل موقوف ہو گیا اور جب سے موقوف ہوا اس وقت سے تیرھویں صدی کے اواخر تک پھر کبھی اس پر عمل در آمد نہیں ہوا۔‘‘ (ص:۲۴) اولاً:.....صاحب رسالہ کا بیان ’’اور ترجیح یا تطبیق کے بعد .....الخ ‘‘ حافظ ابن عبدالبر مالکی کی بیان کردہ ترجیح اور تطبیق پر مبنی ہے جن کا حال پہلے تفصیلاً گزر چکا ہے تو جب مصنف صاحب کے اس فرمان کی بنیاد ہی انتہائی غلط اور احتمالی ہے تو پھر ان کا یہ فرمان کیونکر درست اور غیر احتمالی ہو سکتاہے ۔ فتدبر و ثانیاً :.....پہلے آثار بحوالہ بیان ہو چکے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب و تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں ۔ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بماہ رمضان گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم رضی اللہ عنہما پر لوگوں کو جمع کیا پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے ، پھر پہلے یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے امر اور لوگوں کے عمل گیارہ رکعات کو بدلنے کی کوئی دلیل نہیں ، لہٰذا حضرت المؤلف کا دعویٰ ’’عہدِ فاروقی میں چند روز اس پر عمل ہوا اس کے بعد عہدِ فاروقی ہی میں اس پر عمل موقوف ہو گیا ‘‘ بے دلیل ہے۔