کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 331
کا خلاصہ ہے جو فتح الباری میں اس مسئلہ میں ذکر کیا ہے ، رہی وہ تعداد جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی نماز میں ثابت ہے تو بخاری وعیرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آٹھ رکعتیں پڑھائیں ، پھر وتر پڑھایا اور بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ آپ ماہِ رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔ سلیم رازی نے اپنی کتاب ’’الترغیب ‘‘ میں یہ لفظ زیادہ کیے ہیں کہ اور تین وتر پڑھتے تھے۔‘‘ بیہقی نے فرمایا: اس میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ رہ گئی ہر رکعت میں قراء ت کی مقدار تو اس کے بارے میں کوئی دلیل نہیں آئی۔ حاصل یہ ہے کہ باب کی احادیث اور اس کی ہم مثل دوسری احادیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ رمضان کے قیام اور اسے اکیلے اکیلے یا با جماعت ادا کرنے کی مشروعیت ہے تو اس نماز کو جس کا نام تراویح ہے کسی معین عدد پر بند کر دینا اور کسی مخصوص قراء ت کے ساتھ خاص کر دینا کسی حدیث میں نہیں آیا۔‘‘۱ھ(نیل الاوطار ، ج:۳، ص:۵۳) (( اقول : لم یرد الشوکانی بقولہ : فقصر الصلاۃ المسماۃ بالتراویح علی عدد معین الخ ان العدد المعین فی صلاۃ رمضان لم یثبت عن النبی صلی ا للّٰه علیہ وسلم کما یزعمہ بعض الناس الیوم والدلیل علی عدم ارادتہ ذالک ما قال قبل : واما العدد الثابت عنہ صلی ا للّٰه علیہ وسلم فی صلاتہ فی رمضان الخ۔ وانما اراد بقولہ : فقصر الصلاۃ المسماۃ بالتراویح الخ ۔ ما اشار الیہ بقولہ قبل و اما فعلھا علی الصفۃ التی یفعلونھا الان من ملازمۃ عدد مخصوص و قراء ۃ مخصوصۃ فی کل لیلۃ فسیاتی الکلام علیہ ۔ ۱ھ (نیل الاوطار ج:۳، ص:۵۲)والکلام الموعود اتیانہ قبل ھو قولہ فقصر الصلاۃ الخ فائدۃ: قال الشوکانی فی النیل فی شرح قول صاحب المنتقی : ولما لک فی المؤطا عن یزید بن رومان قال : کان الناس فی زمن عمر یقومون فی رمضان بثلاث و عشرین رکعۃ۔ ما نصہ بلفظہ : قولہ : (بثلاث وعشرین رکعۃ) قال ابن اسحاق : وھذا اثبت ما سمعت فی ذالک ۔ ووھم فی ضوء النھار فقال : ان