کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 329
پھر باجی کے اس قول’’ فضلیت کی کچھ کمی رکعتیں زیادہ کر کے پوری کی ‘‘ سے ظاہر ہے کہ رکعتیں زیادہ کرنے سے قیام اور قراء ت کے طویل ہونے کی فضیلت کی کچھ کمی پوری ہو سکتی ہے تو علماء نے اس مقام پر جو تطبیقیں ذکر کی ہیں تین ہیں ۔ پہلی وہ جو ابن عبدالبر اور بیہقی وغیرہ نے ذکر کی ، دوسری وہ جس کی طرف داؤدی وغیرہ گئے ہیں ، تیسری یہ کہ کبھی لوگ گیارہ پڑھتے تھے کبھی تیرہ اور کبھی بیس۔ اس تطبیق کی طرف حافظ نے یہ کہہ کر اشارہ کیا کہ ان روایات کے درمیان احوال کے اختلاف کا لحاظ کرتے ہوئے تطبیق ممکن ہے اور اس مقام پر ایک چوتھی تطبیق بھی ہے جو صاحب تحفۃ الاحوذی نے ذکر کی ہے ، پھر آپ سے مخفی نہیں رہنا چاہیے کہ تطبیق اور جمع کا مفہوم دوسری اور تیسری تطبیق میں پہلی اور چوتھی تطبیق کی بہ نسبت زیادہ ہے ۔ پس فکر کر‘‘ و سابعاً:…اگر کوئی صاحب فرمائیں مانا کہ ابو حنیفہ کے نزدیک ترجیح تطبیق سے مقدم ہے مگر آپ کے نزدیک تو تطبیق ترجیح سے مقدم ہے تو جواباً عرض ہے کہ یہ درست ہے لیکن محدث مبار ک پوری اور علامہ داؤدی وغیرہ کی پیش کردہ تطبیقات بھی تو آخر تطبیقات ہی ہیں انہیں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے ، البتہاتنی بات یاد رہے کہ یہ ترجیح و تطبیق والی ساری گفتگو حضرت المؤلف کے اندازِ فکر کو پیش نظر رکھنے پر مبنی ہے ۔ ورنہ بندہ کے نزدیک تو محمد بن یوسف کے بیان ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب و تمیم داری رضی اللہ عنہما کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا ‘‘ اور یزید و حارث کے بیانات میں تعارض تو سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ یزید اور حارث کے بیانات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے کی نفی نہیں کی گئی ، ان میں تو صرف لوگوں کے عمل کا ذکر ہے کہ وہ بیس رکعات پڑھتے تھے یا ہم بیس رکعات پڑھتے تھے یا قیام بیس رکعات تھا تو لوگوں کا بیس رکعات پڑھنا خواہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے سے پہلے ہو خواہ گیارہ کا حکم دینے کے بعد کسی صورت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے سے متعارض نہیں ہے تو جب حضرت سائب بن یزید کے اصحاب ثلاثہ کے بیانات میں تعارض ہی نہیں تو اس مقام پر نہ تطبیق کی ضرورت ہے اور نہ ترجیح کی ، اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ لوگوں کا گیارہ کے حکم سے پہلے بیس رکعات پڑھنا تو واقعی گیارہ کے حکم سے متعارض نہیں مگر گیارہ کے حکم کے بعد لوگوں کا بیس رکعات پڑھنا گیارہ کے حکم سے کیونکر متعارض نہیں تو جواباً گزارش ہے کہ وہ اس لیے متعارض نہیں کہ لوگوں کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے کے بعد بیس رکعات پڑھنے سے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے کی نفی نہیں ہوتی نہ مطابقت نہ ہی تضمناً اور نہ ہی التزاماً زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم گیارہ رکعات سے بڑھ کر از خود بیس رکعات پڑھیں اور