کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 328
(( فیکون عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ علی رأی ھؤلا إمرھم اولا بالأفضل ثم نقلھم الی غیر الافضل و شان عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ اجل و ارفع من ھذا کما یحصل من ارشادہ ایاھم الی القیام فی آخر اللیل وجمعہ ایاھم علی قاریٔ واحد و انما راعی الافضل فیھما فلم یکن لیراعی الافضل فی وقت القیام وکیفہ و یدعھا فی کمہ ، ثم لا دلیل لا مر عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ ایاھم بثلاث و عشرین کما تقدم نعم قد ثبت ان عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ امرا بیا و تمیما رضی اللّٰه تعالیٰ عنہما ان یقوما للناس باحدی عشرۃفتامل ثم قول الباجی :واستدرک بعض الفضیلۃ بزیادۃ الرکعات ظاہر فی ان فی زیادۃ الرکعات استدرا کالبعض فضیلۃ طول القیام والقرأۃ لا کل فضیلتہ۔ فالتطبیقات التی ذکرھا العلماء ھھنا ثلاث الاول ما ذکرہ ابن عبدالبر والبیہقی وغیرھما والثانی ما ذہب الیہ الداودی وغیرہ والثالث انھم کانوا یصلون احدی عشرۃ تارۃ و تارۃ ثلاث عشرۃ و تارۃ عشرین و قد اشار الیہ الحافظ بقولہ : والجمع بین ھذہ الروایات ممکن باختلاف الاحوال۔ وھھنا تطبیق رابع قد ذکرہ صاحب تحفۃ الاحوذی ولا یذہب علیک ان معنی التطبیق والجمع والتوفیق فی الثانی والثالث اشد وازید من الاول و الرابع فتفکر)) ’’ترجمہ:.....تو ان لوگوں کی رائے کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں پہلے افضل کا حکم دیا ہو گا پھر انہیں غیر افضل کی طرف منتقل کر دیا ہو گا حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان اس بات سے نہایت بلند ہے۔ جیسا کہ آپ کے ان کی رات کے آخر حصہ میں قیام کی طرف رہنمائی اور انہیں ایک قاری پر جمع کرنے سے بالکل ظاہر ہو رہا ہے اور آپ نے ان دونوں چیزوں میں افضل کا خیال رکھا تو یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قیام کے وقت اور کیفیت میں تو افضل کا خیال رکھیں اور کمیت( تعداد) میں اس کا خیال چھوڑ دیں ، پھر اس بات کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ آپ نے لوگوں کو تئیس رکعت کا حکم دیا جیسا کہ گزر چکا ہے ۔ ہاں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت قیام کروائیں ۔ فتامل