کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 327
المؤطا للزرقانی ، ج:۱، ص:۲۳۹) ’’ترجمہ: .....اس سے ظاہر ہوا کہ گیارہ یا تیرہ رکعت قیام جب کہ ان میں قیام اور قراء ت طویل کیے جائیں دونوں جلیل القدر ائمہ ابو حنیفہ اور شافعی کے نزدیک بھی تئیس ، انتالیس اور اکتالیس رکعت قیام سے افضل ہے جب کہ ان میں قیام اور قراء ت ہلکے ہوں ، ہمارے علاقے میں آج کل عملی صورت یہی ہے کہ جو لوگ گیارہ یا تیرہ رکعت پڑھتے ہیں ان کی قراء ت تئیس رکعت پڑھنے والوں کی قراء ت کے برابر ہی ہوتی ہے الا نادراً اسی طرح اول الذکر لوگوں کا قیام آخر الذکرحضرات کے قیام سے عموماً لمبا ہوتا ہے تو پہلے لوگوں کا عمل قیام رمضان میں دوسرے حضرات کے قیام سے ابو حنیفہ اور شافعی کے نزدیک بھی افضل ہو گا۔ فتدبر پھر وہ تطبیق جو صاحب رسالہ نے ابن عبدالبر وغیرہ سے بیان کی اس کی بناء تئیس یا اکتالیس رکعتوں میں قیام اور قراء ت کی تخفیف پر ہے جیسا کہ یہ بات خود ابن عبدالبر کی عبارت اور اس کے اس اُردو ترجمہ سے ظاہر ہے جو مصنف نے کیا ہے اور یہی بات باجی کے اس کلام سے بھی ظاہر ہو رہی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں :’’تو آپ نے پہلے انہیں قراء ت طویل کرنے کا حکم دیا کیونکہ یہ افضل ہے پھر لوگ کمزور ہو گئے تو انہیں تئیس کا حکم دیا اور طول قراء ت میں تخفیف کر دی اور اس سے فضیلت میں جو کمی آئی تھی اس کا کچھ حصہ رکعتیں زیادہ کر کے پورا کر دیا۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ یوم حرہ تک معاملہ اسی طریقے پر رہا پس لوگوں پر قیام بھاری ہو گیا تو انہوں نے قراء ت کم کر دی اور رکعات زیادہ کر دیں ، چنانچہ رکعات کی تعداد جفت اور وتر کے علاوہ چھتیس کر دی گئی اور ابن حبیب نے ذکر کیا کہ تراویح پہلے گیارہ تھیں لوگ ان میں قراء ت لمبی کرتے تھے تو یہ ان پر بھاری ہو گئی تو انہوں نے قراء ت ہلکی کر دی اور رکعتوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ، چنانچہ وہ جفت اور وتر کے بغیر درمیانی قرأت کے ساتھ بیس رکعت پڑھتے تھے ، پھر انہوں نے قرأت میں تخفیف کر دی اور رکعات جفت اور وتر کے بغیر چھتیس کر دیں اور معاملہ اسی پر چل نکلا ‘‘ اور محمد بن نصر نے داؤد بن قیس سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے لوگوں کو (مدینہ میں ) ابان بن عثمان اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں پایا کہ وہ چھتیس رکعت قیام کرتے تھے اور تین وتر پڑھتے تھے اور مالک نے فرمایا ہمارے ہاں یہی امر قدیم ہے۔ ۱ھ (شرح مؤطا للزرقانی ج:۱، ص:۲۳۹)