کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 322
دلالت کر رہے ہیں ۔ وسادساً:.....اگر احتمالی تطبیق ہی کو اختیار کرنا ہے تو پھر احتمالی تطبیقات اور بھی ہیں ان سے کسی کو اختیار کیا جا سکتا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں : (( والجمع بین ھذہ الروایات ممکن باختلاف الاحوال و یحتمل ان ذالک الاختلاف بحسب تطویل القراء ۃ و تخفیفھا فحیث یطیل القراء ۃ تقل الرکعات وبالعکس و بذالک جزم الداؤدی وغیرہ والعدد الاول (ای احدی عشرۃ) موافق لحدیث عائشہ المذکور بعد ھذا الحدیث فی الباب والثانی(ای ثلاث عشرۃ) قریب منہ والاختلاف فیمازاد عن العشرین راجع الی الاختلاف فی الوتر و کانہ کان تارۃ یوتر بواحدۃ تارَۃ بثلاث)) (۱ھ فتح الباری ج:۴،ص:۲۵۳) ’’ترجمہ:.....اور ان روایات میں مختلف احوال کا لحاظ رکھتے ہوئے تطبیق ممکن ہے اور احتمال ہے کہ یہ اختلاف قراء ت کو طویل اور کم کرنے کے اعتبار سے ہو تو جب قراء ت لمبی ہو تو رکعات کم ہوں اور اس کے برعکس قراء ت ہلکی ہو تو رکعات زیادہ ہوں ۔ داؤدی وغیرہ نے اسی کو یقین کے ساتھ بیان کیا ہے اور پہلی تعداد (گیارہ) حصرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے موافق ہے جو اس حدیث کے بعد باب میں ذکر ہوئی ہے اور دوسری (تیرہ)اس سے قریب ہے اور بیس سے زائد کا اختلاف ، وتر کے مختلف ہونے کی وجہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کبھی ایک وتر پڑھا جاتا تھا کبھی تین ۔ انتہی (فتح الباری ، ج:۴، ص:۲۵۳) (( اقول : ویؤید ما جزم بہ الداؤدی و غیرہ ما ذکرہ صاحب آثار السنن فی باب التراویح باکثر من ثمان رکعات عن داؤد بن الحصین انہ سمع الاعرج یقول : ما ادرکت الناس الاوھم یلعنون الکفرۃ فی رمضان قال و کان القاری یقرأ سورۃ البقرۃ فی ثمان رکعات فاذا قام بھا فی اثنتی عشرۃ رکعۃ رأی الناس انہ قد خفف رواہ مالک و اسنادہ صحیح۔ ۱ھ(ص:۲۰۳))) ’’ترجمہ:.....میں کہتا ہوں داؤدی وغیرہ نے جو بات یقین سے کہی ہے اس کی تائید اس اثر سے بھی ہوتی ہے جو صاحب آثار السنن نے آٹھ رکعت سے زیادہ تراویح کے باب میں داؤد بن حصین سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اعرج سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے لوگوں کو اسی حال پر پایا کہ وہ رمضان