کتاب: احکام ومسائل جلد دوم - صفحہ 321
’’ ترجمہ:.....میں کہتا ہوں کہ اگر آپ صاحب فیض کے اس کلام اور دوسرے کلام پر جو اعتراض اور خرابیاں لازم آتی ہیں جاننا چاہیں تو ہمارے شیخ (بارک ا للّٰه فی علمہ و عملہ و رزقہ و عمرہ) نے فیض الباری پر جو انتقادات ارشاد القاری کے نام سے لکھے ہیں ان کا مطالعہ فرمائیں ان شاء اللہ وہ طبع ہو جائیں گے۔ یہاں مقصد صرف یہ بیان کرنا ہے کہ حنفیہ کے ہاں ترجیح تطبیق پر مقدم ہے۔‘‘ تو اس اصول کے اعتبار سے عند الحنفیہ اس مقام پر تطبیق کی طرف رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس جگہ ترجیح کی صورت موجودہے لیکن حضرت المؤلف نے چونکہ تطبیق کا بھی تذکرہ فرمایا ہے اس لیے ان کی پیش فرمودہ تطبیق کا جائزہ لینا بھی فائدہ سے خالی نہیں ۔ ورابعاً: .....حضرت المؤلف نے جو تطبیق نقل فرمائی وہ یہ ہے کہ پہلے گیارہ کا حکم دیا ہو پھر قیام میں تخفیف کے لیے گیارہ کی بجائے اکیس رکعتیں کر دی گئی ہوں ‘‘ مگر بندہ کو گیارہ کا حکم پہلے ہونے اور بعد میں اکیس کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ملی نہ تو حضرت المؤلف کے کلام میں اور نہ ہی حافظ بیہقی ، حافظ ابن حجر ، علامہ زرقانی ، علامہ شوکانی ، علامہ عینی ، علامہ شوق صاحب نیموی صاحب آثار السنن ، علامہ باجی مالکی اور دیگر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی تحریرات میں بلکہ بندہ نے اپنی ناقص یادداشت کے مطابق گیارہ کا حکم پہلے ہونے اور بعد میں اکیس کر دینے کی آج تک کوئی دلیل نہ کہیں پڑھی اور نہ کسی سے سنی لہٰذا حضرت المؤلف کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ برائے مہربانی اس مذکورہ تطبیق کی کوئی دلیل بیان فرمائیں ۔ وخامساً:.....حضرت المؤلف کی عبارت بتلا رہی ہے کہ مذکورہ تطبیق احتمال پر مبنی ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں ’’ اس کے ساتھ تطبیق کے لیے گیارہ کی بجائے اکیس رکعتیں کر دی گئی ہوں ‘‘ تو ان کے الفاظ ’’حکم دیا ہو‘‘ اور ’’کردی گئی ہوں ‘‘ پر غور کرنے سے مذکورہ تطبیق کا مبنی بر احتمال ہونا خود بخود واضح ہو جاتا ہے پھر حافظ ابن عبدالبر کے الفاظ (( وَیحتمل ان یکون ذالک اولا ثم خفف عنھم طول القیام و نقلھم الی احدی و عشرین…الخ)) ’’احتمال ہے کہ یہ پہلے ہو پھر ان سے لمبے قیام میں تخفیف کر دی ہو اور انہیں اکیس رکعات کی طرف منتقل کر دیا ہو‘‘ علامہ زرقانی کے الفاظ (( وھم مع ان الجمع بالاحتمال الذی ذکرہ قریب)) ’’اور وہم بالکل نہیں کیونکہ مذکورہ احتمال کے ساتھ تطبیق ممکن ہے۔‘‘ اور علامہ عینی کے شیخ مکرم کے الفاظ (( لعل ھذا کان من فعل عمرا ولا ثم نقلھم الی ثلاث و عشرین)) ’’شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل پہلے ہو پھر آپ نے انہیں تئیس کی طرف منتقل کر دیا ہو ‘‘ بھی حضرت المؤلف وغیرہ کی نقل کر دہ تطبیق کے احتمالی ہونے پر